ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبید بن حنین نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قبیلہ انصار کے ایک صاحب تھے (اوس بن خولیٰ نام) جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شرکت نہ کر سکتے اور میں شریک ہوتا تو انہیں آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کی خبریں بتاتا اور جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شریک نہ ہو پاتا اور وہ شریک ہوتے تو وہ آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کی خبر مجھے بتاتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَخْبَارِ الْآحَادِ/حدیث: 7256]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7256
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے خبر واحد کا حجت ہونا نکلتا ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کی خبر پر یقین کرتے اور وہ حضرت کی خبر پر اعتماد کرتا تھا۔ پر خبر واحد پر تواتراً عمل ہوتا آرہا ہے مگر مقلدین کو اللہ عقل دے کہ وہ کیوں ایک صحیح بات کی زبردستی سے منکر ہو گئے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7256
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7256
حدیث حاشیہ: 1۔ اس شخص کا نام اوس بن خولی انصاری تھا۔ ان پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پورا پورا اعتماد تھا اور انھیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کامل یقین ہوتا تھا۔ یہ دونوں حضرات ایک دوسرے پر اعتماد کرتے اور ایک دوسرے کی باتوں پر یقین کرتے تھےاور جو کچھ سنتے اس کے مطابق عمل کرتے تھے۔ 2۔ اس حدیث سے خبر واحد کے قابل حجت ہونے کا ثبوت ملتا ہے لیکن کچھ لوگ اس کے لیے شرائط لگاتے ہیں جس کا کوئی ثبوت نہیں ہے بہر حال خبر واحد پر یقین اور عمل کا طریقہ تواتر سے چلا آرہا ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7256