ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے زہری نے، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور انہیں مسور بن مخرمہ نے خبر دی کہ وہ چھ آدمی جن کو عمر رضی اللہ عنہ خلافت کے لیے نامزد کر گئے تھے (یعنی علی ‘ عثمان ‘ زبیر ‘ طلحہ اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم کہ ان میں سے کسی ایک کو اتفاق سے خلیفہ بنا لیا جائے) یہ سب جمع ہوئے اور مشورہ کیا۔ ان سے عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا خلیفہ ہونے کے لیے میں آپ لوگوں سے کوئی مقابلہ نہیں کروں گا۔ البتہ اگر آپ لوگ چاہیں تو آپ لوگوں کے لیے کوئی خلیفہ آپ ہی میں سے میں چن دوں۔ چنانچہ سب نے مل کر اس کا اختیار عبدالرحمٰن بن عوف کو دے دیا۔ جب ان لوگوں نے انتخاب کی ذمہ داری عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دی تو سب لوگ ان کی طرف جھک گئے۔ جتنے لوگ بھی اس جماعت کے پیچھے چل رہے تھے، ان میں اب میں نے کسی کو بھی ایسا نہ دیکھا جو عبدالرحمٰن کے پیچھے نہ چل رہا ہو۔ سب لوگ ان ہی کی طرف مائل ہو گئے اور ان دنوں میں ان سے مشورہ کرتے رہے جب وہ رات آئی جس کی صبح کو ہم نے عثمان رضی اللہ عنہ سے بیعت کی۔ مسور رضی اللہ عنہ نے بیان کیا تو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ رات گئے میرے یہاں آئے اور دروازہ کھٹکٹھایا یہاں تک کہ میں بیدار ہو گیا۔ انہوں نے کہا میرا خیال ہے آپ سو رہے تھے، اللہ کی قسم میں ان راتوں میں بہت کم سو سکا ہوں۔ جائیے! زبیر اور سعد کو بلائیے۔ میں ان دونوں بزرگوں کو بلا لایا اور انہوں نے ان سے مشورہ کیا، پھر مجھے بلایا اور کہا کہ میرے لیے علی رضی اللہ عنہ کو بھی بلا دیجئیے۔ میں نے انہیں بھی بلایا اور انہوں نے ان سے بھی سر گوشی کی۔ یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی۔ پھر علی رضی اللہ عنہ ان کے پاس کھڑے ہو گئے اور ان کو اپنے ہی لیے امید تھی۔ عبدالرحمٰن کے دل میں بھی ان کی طرف سے یہی ڈر تھا، پھر انہوں نے کہا کہ میرے لیے عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی بلا لائیے۔ میں نے انہیں بھی بلا لایا اور انہوں نے ان سے بھی سرگوشی کی۔ آخر صبح کے مؤذن نے ان کے درمیان جدائی کی۔ جب لوگوں نے صبح کی نماز پڑھ لی اور یہ سب لوگ منبر کے پاس جمع ہوئے تو انہوں نے موجود مہاجرین، انصار اور لشکروں کے قائدین کو بلایا۔ ان لوگوں نے اس سال حج عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا تھا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا پھر کہا امابعد! اے علی! میں نے لوگوں کے خیالات معلوم کئے اور میں نے دیکھا کہ وہ عثمان کو مقدم سمجھتے ہیں اور ان کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے، اس لیے آپ اپنے دل میں کوئی میل پیدا نہ کریں۔ پھر کہا میں آپ (عثمان رضی اللہ عنہ) سے اللہ کے دین اور اس کے رسول کی سنت اور آپ کے دو خلفاء کے طریق کے مطابق بیعت کرتا ہوں۔ چنانچہ پہلے ان سے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بیعت کی، پھر سب لوگوں نے اور مہاجرین، انصار اور فوجیوں کے سرداروں اور تمام مسلمانوں نے بیعت کی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: 7207]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7207
حدیث حاشیہ: عبد الرحمن رضی اللہ عنہ یہ ڈرتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مزاج میں ذرا سختی ہے اور عام لوگ ان سے خوش نہیں ہیں۔ ان سے خلافت سنبھلتی ہے یا نہیں ایسا نہ ہو کوئی فتنہ کھڑا ہو جائے بعضے کہتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مزاج شریف میں ظرافت اور خوش طبعی بہت تھی۔ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کو یہ ڈر ہوا کہ اس مزاج کے ساتھ خلافت کا کام اچھی طرح سے چلے گا یا نہیں۔ چنانچہ ایک شخص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اسی ظرافت اور خوش طبعی کی نسبت کہا ھذا الذي أخرك إلی الرابعة پس بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کر لی امر الٰہی یہی تھا کہ پہلے عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوں اور اخیر میں جناب مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو خلافت ملے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7207
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7207
حدیث حاشیہ: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر مشتمل شوری تشکیل دی اور فرمایا: اگر میری موت جلد واقع ہو جائے تو یہ حضرات جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آخری وقت تک راضی رہے خلیفے کا انتخاب کریں۔ مسلمانوں میں سے کوئی شخص بھی ملکی امور کوسمجھنے اور سیاست کرنے میں ان کے ہم پلہ نہ تھا۔ حضرت عبدالرحمٰن کی تحریک پر حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں دست بردار ہو گئے۔ حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلافت کے سلسلے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اب معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں میں سے ایک کے انتخاب کا تھا۔ حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دن رات بھاگ دوڑ اور محنت کی اور آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے برابر کسی دوسرے کو نہیں سمجھتے۔ اس لیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے طویل سر گوشی کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی اگرچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیداور توقع تھی کہ ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے گی لیکن لوگوں کے اتفاق نے انھیں مجبور کیا کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منتخب کریں اس موقع پر لشکروں کے سپہ سالار موجود تھے ان میں شام کے امیرحضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حمص کے امیر حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفے کے امیر حضرت مغیرہ بن شعبہ، بصرے کے امیر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مصر کے امیر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ قابل ذکر ہیں اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر سب لوگ متفق تھے۔ ۔ ۔ رضی اللہ عنه۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7207