ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیجئیے۔ پھر دوسرے فریق کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی کہا کہ یہ صحیح کہتے ہیں، ہمارا فیصلہ کتاب اللہ سے کر دیجئیے۔ پھر دیہاتی نے کہا میرا لڑکا اس شخص کے یہاں مزدور تھا، پھر اس نے اس کی بیوی کے ساتھ زنا کر لیا تو لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تمہارے لڑکے کا حکم اسے رجم کرنا ہے لیکن میں نے اپنے لڑکے کی طرف سے سو بکریوں اور ایک باندی کا فدیہ دے دیا۔ پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لیے شہر بدر ہو گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ باندی اور بکریاں تو تمہیں واپس ملیں گی اور تیرے لڑکے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کے لیے جلا وطن ہونا ہے اور انیس (جو ایک صحابی تھے) سے فرمایا کہ تم اس کی بیوی کے پاس جاؤ اور اسے رجم کرو۔ چنانچہ انیس رضی اللہ عنہ اس کے پاس گئے اور اسے رجم کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: 7193]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7193
حدیث حاشیہ: تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس کو اپنا نائب بنا کر بھیجا تھا اور انیس کے سامنے اس کے اقرار کا وہی حکم ہوا جیسے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اقرار کرتی اگر انیس گواہ بنا کر بھیجے گئے ہوتے تو ایک شخص کی گواہی پر اقرار کیسے ثابت ہو سکتا ہے۔ حافظ نے کہا امام بخاری رضی اللہ عنہ نے یہ باب لا کر امام محمد کے اختلاف کی طرف اشارہ کیا۔ ان کا مذہب یہ ہے کہ قاضی کسی شخص کے اقرار کر کوئی حکم نہیں دے سکتا‘ جب تک دو عادل شخصوں کو جو قاضی کی مجلس میں رہا کرتے ہیں اس کے اقرار پر گواہ نہ بنا دے اور جب وہ دونوں اس کے اقرار پر گواہی دیں تب قاضی ان کی شہادت کی بنا پر حکم دے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7193
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7193
حدیث حاشیہ: 1۔ عربوں کے ہاں یہ دستور تھا کہ فوجداری معاملات میں اپنے قبیلے کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی بات سننا گوارا نہ کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دستور کے مطابق حضرت انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب کیا کیونکہ وہ عورت کے قبیلہ اسلم کے ایک معزز فرد تھے اگرچہ عورت کے خاوند کی موجودگی میں بد کاری کے متعلق بات ہوئی تھی تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید تحقیق کرنے اور حالات کا جائزہ لینے کے لیے ایک ذمہ دار فرد روانہ کیا اور اسے ہدایت دی کہ اگر وہ اپنے جرم کا اعتراف کرے تو اسے رجم کر دینا چنانچہ اس کے اعتراف کے نتیجے میں اسے رجم کر دیا گیا۔ 2۔ امام بخاری نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ حاکم وقت کسی بھی معاملے کی تحقیق و تفتیش کے لیے کسی بھی شخص کو روانہ کر سکتا ہے خود اس کا اپنا جانا ضروری نہیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7193