اتنے میں اشعث رضی اللہ عنہ بھی آ گئے۔ ابھی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان سے حدیث بیان کر ہی رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میرے ہی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی اور ایک شخص کے بارے میں میرا ان سے کنویں کے بارے میں جھگڑا ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ سے) کہا کہ تمہارے پاس کوئی گواہی ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فریق مقابل کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ میں نے کہا کہ پھر تو یہ (جھوٹی) قسم کھا لے گا۔ چنانچہ آیت «إن الذين يشترون بعهد الله»”بلاشبہ جو لوگ اللہ کے عہد کو“ الخ نازل ہوئی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: 7184]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7184
حدیث حاشیہ: اس سے کنوئیں وغیرہ کے مقدمات ثابت ہوئے اور یہ بھی کہ اگر مدعی کے پاس گواہ نہ ہو تو مدعا علیہ سے قسم لی جائے گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7184
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7184
حدیث حاشیہ: 1۔ یہ حدیث بھی اس امر کی دلیل ہے کہ حاکم کا فیصلہ ظاہری طور پر نافذ ہوگا لیکن وہ حرام کو حلال نہیں کرسکے گا اور نہ ممنوع چیز کو مباح ہی کرے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو جھوٹی قسم اٹھا کر کسی دوسرے کا حق ہتھیانے سے منع فرمایا ہے اور اس پر سخت وعید سنائی ہے۔ قرآن کریم کی وعید تو اس معاملے میں بہت سنگین ہے کہ اللہ ایسے شخص سے گفتگو نہ کرے گا اور نہ اسے پاکیزہ ہی قرار دے گا بلکہ اسے سنگین عذاب دے گا۔ اگر قاضی کا فیصلہ باطن میں بھی نافذ ہوتا اور حرام کو حلال کر دیتا تو اسے اللہ تعالیٰ سے شرف کلام سے محروم نہ کیا جاتا۔ 2۔ بہرحال اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنویں کے متعلق فیصلہ فرمایا۔ قاضی کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے مقدمات کی بھی سماعت کرے اور ان کا فیصلہ کرے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7184