ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر نے، اور ان سے ان کے والد نے کہ کچھ لوگوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ ہم اپنے حاکموں کے پاس جاتے ہیں اور ان کے حق میں وہ باتیں کہتے ہیں کہ باہر آنے کے بعد ہم اس کے خلاف کہتے ہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم اسے نفاق کہتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: 7178]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7178
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے کہ چند لوگ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برا بھلا کہنے لگے۔ آپ نے فرمایا: تم ان کے سامنے بھی ایسا کہتے ہو؟انھوں نے کہا: نہیں،بلکہ ہم ان کے سامنے تعریف کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ہم اسی کو منافقت شمارکرتے تھے۔ (فتح الباري: 212/13 وسنن الکبری للبیهقي: 165/5) ایک دوسری حدیث میں ہے: ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: یہ شخص بہت بُرا ہے۔ لیکن وہ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے خندہ پیشانی سے ملے؟ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 6032) اس کا جواب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اظہار حقیقت کیا تاکہ اس سے کوئی معاملہ نہ کریں اور جب وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض نہیں۔ 2۔ بہرحال انسان کے ظاہرہ باطن میں یکسانیت ہونی چاہیے۔ ظاہر وباطن کے فرق کو منافقت کہا جاتا ہے لیکن یہ عملی منافقت ہے جو انسان کو آہستہ آہستہ کفر کےقریب کر دیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نفاق کفر تھا جبکہ ہمارے ہاں نفاق عمل پایا جاتا ہے۔ (فتح الباري: 212/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7178