ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ان کے چچا موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور انہیں مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، جب مسلمانوں نے قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کو اجازت دی تو فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ پس واپس جاؤ اور تمہارا معاملہ ہمارے پاس تمہارے نقیب یا چودھری اور تمہارے سردار لائیں۔ چنانچہ لوگ واپس چلے گئے اور ان کے ذمہ داروں نے ان سے بات کی اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آ کر اطلاع دی کہ لوگوں نے دلی خوشی سے اجازت دے دی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: 7176]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7176
حدیث حاشیہ: مخصوص لوگوں کے منتظم اور چودھری کو عریف کہتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ عریف، جہنم میں جائیں گے اور امراء کے لیے بھی ہلاکت ہے۔ (مسند ذحمد: 352/2) اس سے مراد وہ منتظم ہیں جو حد سے گزرنے والے اور ظلم وستم ڈھانے والے ہوں۔ مطلق طور پرعرفاء قابل مذمت نہیں ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس نظام کی اجازت دی ہے۔ کوئی آدمی اکیلا امور مملکت نہیں چلا سکتا، اسے نچلی سطح پرعرفاء (ناظم وغیرہ) کی ضرورت ہے جو لوگوں کی ضروریات اوران کے مسائل حاکم اعلیٰ تک پہنچائیں اورحکومت کے قوانین وہدایات عام لوگوں تک پہنچائیں، چنانچہ ابن بطال نے لکھا ہے کہ مذکورہ حدیث میں عرفاء اور منتظم حضرات کی مشروعیت کا بیان ہے کیونکہ امام وقت تمام معاملات براہ راست نہیں چلا سکتا۔ اس نظام کی اسے ضرورت ہے تاکہ لوگوں کے معاملات کو احسن انداز میں بروقت نمٹایا جاسکے اور انھیں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ (فتح الباري: 210/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7176