ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شہاب نے بیان کیا، ان سے جوف نے بیان کیا، ان سے ابومنہال نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن زیاد اور مروان شام میں تھے اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں اور خوارج نے بصرہ میں قبضہ کر لیا تھا تو میں اپنے والد کے ساتھ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ جب ہم ان کے گھر میں ایک کمرہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے جو بانس کا بنا ہوا تھا، ہم ان کے پاس بیٹھ گئے اور میرے والد ان سے بات کرنے لگے اور کہا: اے ابوبرزہ! آپ نہیں دیکھتے لوگ کن باتوں میں آفت اور اختلاف میں الجھ گئے ہیں۔ میں نے ان کی زبان سے سب سے پہلی بات یہ سنی کہ میں جو ان قریش کے لوگوں سے ناراض ہوں تو محض اللہ کی رضا مندی کے لیے، اللہ میرا اجر دینے والا ہے۔ عرب کے لوگو! تم جانتے ہو پہلے تمہارا کیا حال تھا تم گمراہی میں گرفتار تھے، اللہ نے اسلام کے ذریعہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ تم کو اس بری حالت سے نجات دی۔ یہاں تک کہ تم اس رتبہ کو پہنچے۔ (دنیا کے حاکم اور سردار بن گئے) پھر اسی دنیا نے تم کو خراب کر دیا۔ دیکھو! یہ شخص جو شام میں حاکم بن بیٹھا ہے یعنی مروان دنیا کے لیے لڑ رہا ہے۔ یہ لوگ جو تمہارے سامنے ہیں۔ (خوارج) واللہ! یہ لوگ صرف دنیا کے لیے لڑ رہے ہیں اور وہ جو مکہ میں ہے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما، واللہ! وہ بھی صرف دنیا کے لیے لڑ رہا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْفِتَنِ/حدیث: 7112]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7112
حدیث حاشیہ: 1۔ گوشہ نشین صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اندرونی فسادات اور باہمی لڑائی کے متعلق یہ نظریہ تھا کہ حق وصداقت کا معیار کفار سے جنگ اور آپس میں امن وسلامتی ہونا چاہیے اسی لیے وہ ان فسادات سے کنارہ کش اور الگ تھلگ رہے۔ سیدنا حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خانہ جنگی میں مبتلا حضرات کے متعلق اپنے بھر پور جذبات کا اظہار کیا۔ 2۔ ہمارا رجحان یہ ہے کہ اپنی سمجھ کے مطابق یہ حضرات بھی اللہ تعالیٰ کے لیے لڑے اور انھوں نے امت کی بھلائی کو پیش نظر رکھا اگرچہ نتائج کچھ بھی سامنے آئے لیکن ہمیں ان کی نیت پر کوئی شبہ نہیں ہے۔ چونکہ ان کے نفوس پاک تھے، اس لیے اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو وہی کام کرتے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے عین مطابق ہوتے۔ 3۔ اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث میں موجود لوگوں پر تنقید فرمائی کہ وہ بظاہر دین کے استحکام اور حق کی نصرت کے لیے لڑتے ہیں، حالانکہ اندرونی طور پر ان کی نیتوں میں فتور ہےاور وہ دنیا طلبی کے لیے لڑتے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ ابوبرزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باتیں سن کر میرے باپ نےکہا: آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے کسی کو نہیں چھوڑا۔ انھوں نے فرمایا: مجھے تو آج ان میں خیروبرکت کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا، ہاں بہت قلیل تعداد میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں۔ جنھوں نے دوسروں کے مال سے اپنے پیٹ محفوظ رکھے ہیں اور دوسرے لوگوں کے خون ناحق ان کی گردنوں میں نہیں ہیں۔ (فتح الباري: 92/13) 4۔ بہرحال ایسے حالات میں فتنوں سے الگ تھلگ رہنے ہی میں عافیت ہے،خصوصاً وہ فتنے جو نفاق کی پیداوار ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ جنگ وقتال میں قطعاً حصہ نہیں لینا چاہیے، بالخصوص جب جنگ کی بنیاد ہوس ملک گیری ہو۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7112