20. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمانا ”میرا یہ بیٹا سردار ہے اور یقیناً اللہ پاک اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا“۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، کہا کہ عمرو نے بیان کیا، انہیں محمد بن علی نے خبر دی، انہیں اسامہ رضی اللہ عنہ کے غلام حرملہ نے خبر دی، عمرو نے بیان کیا کہ میں نے حرملہ کو دیکھا تھا۔ حرملہ نے بیان کیا کہ مجھے اسامہ نے علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور مجھ سے کہا، اس وقت تم سے علی رضی اللہ عنہ پوچھیں گے کہ تمہارے ساتھی (اسامہ رضی اللہ عنہ) جنگ جمل و صفین سے کیوں پیچھے رہ گئے تھے تو ان سے کہنا کہ انہوں نے آپ سے کہا ہے کہ اگر آپ شیر کے منہ میں ہوں تب بھی میں اس میں بھی آپ کے ساتھ رہوں لیکن یہ معاملہ ہی ایسا ہے یعنی مسلمانوں کی آپس کی جنگ تو (اس میں شرکت صحیح) نہیں معلوم ہوئی (حرملہ کہتے ہیں کہ) چنانچہ انہوں نے کوئی چیز نہیں دی۔ پھر میں حسن، حسین اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم کے پاس گیا تو انہوں نے میری سواری پر اتنا مال لدوا دیا جتنا کہ اونٹ اٹھا نہ سکتا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْفِتَنِ/حدیث: 7110]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7110
حدیث حاشیہ: حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما حضرت ام ایمن کے بطن سے پیدا ہوئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد جناب عبداللہ کی آزاد کردہ لونڈی تھیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کی تھی۔ حضرت اسامہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین خادم تھے۔ وفات نبوی کے وقت ان کی عمر بیس سال کی تھی۔ وادی القریٰ میں سنہ 54ھ میں شہید ہوئے۔ رضي اللہ عنه۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7110
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7110
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی فتنہ وفساد کے دنوں گوشہ نشینی اختیار کررکھی تھی۔ غالباً اس احتیاط کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں انھوں نے ایک کلمہ گو کو قتل کردیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شدید غصے اور سخت ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ اس وقت سے انھوں نے خود پر لازم کرلیا تھا کہ وہ آئندہ کسی مسلمان سے جنگ وقتال نہیں کریں گے۔ مذکورہ حدیث میں بھی حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا احتیاطی پہلو ہی نمایاں ہوتا ہے۔ 2۔ شارح صحیح بخاری ابن بطال کہتے ہیں کہ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے آزاد کردہ غلام حرملہ کو معذرت کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیجا کہ صفین اور جمل کی لڑائیوں میں صرف خون مسلم کے احترام کی وجہ سے آپ کا ساتھ نہیں دے سکا ہوں۔ اگرآپ کسی قسم کی ذاتی تکلیف میں ہوتے تو مجھے تمام لوگوں سے پہلے اپنے ہمراہ پاتے لیکن جنگ وقتال کا معاملہ ہی کچھ ایسا تھا کہ میں ان میں شرکت سے معذور تھا۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري: 85/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7110