الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
65. بَابُ مَنْ أَخَفَّ الصَّلاَةَ عِنْدَ بُكَاءِ الصَّبِيِّ:
65. باب: جس نے بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو مختصر کر دیا۔
حدیث نمبر: 707
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلَاةِ أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ"، تَابَعَهُ بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَبَقِيَّةُ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ.
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام عبدالرحمٰن بن عمرو اوزاعی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انہوں نے اپنے باپ ابوقتادہ حارث بن ربعی سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نماز دیر تک پڑھنے کے ارادہ سے کھڑا ہوتا ہوں۔ لیکن کسی بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو ہلکی کر دیتا ہوں، کیونکہ اس کی ماں کو (جو نماز میں شریک ہو گی) تکلیف میں ڈالنا برا سمجھتا ہوں۔ ولید بن مسلم کے ساتھ اس روایت کی متابعت بشر بن بکر، بقیہ بن ولید اور ابن مبارک نے اوزاعی کے واسطہ سے کی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ/حدیث: 707]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريأقوم في الصلاة أريد أن أطول فيها فأسمع بكاء الصبي فأتجوز في صلاتي كراهية أن أشق على أمه
   صحيح البخاريأقوم إلى الصلاة وأنا أريد أن أطول فيها فأسمع بكاء الصبي فأتجوز في صلاتي كراهية أن أشق على أمه
   سنن أبي داودأقوم إلى الصلاة وأنا أريد أن أطول فيها فأسمع بكاء الصبي فأتجوز كراهية أن أشق على أمه
   سنن النسائى الصغرىأسمع بكاء الصبي فأوجز في صلاتي كراهية أن أشق على أمه
   سنن ابن ماجهأقوم في الصلاة وأنا أريد أن أطول فيها فأسمع بكاء الصبي فأتجوز كراهية أن أشق على أمه

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 707 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:707  
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا قیام، رکوع اور سجود تقریبا برابر ہوتے تھے، اس لیے نماز میں اعتدال ضروری ہے۔
لیکن اگر نماز شروع کرنے کے بعد کوئی عارضہ پیش آجائے، مثلاً:
بچہ رونے لگے یا بارش ہونے لگے تو تخفیف کرنے کی شرعا اجازت ہے یا شروع ہی سے کسی عارضے کی وجہ سے ہلکی نماز پڑھانے کا ارادہ کرے تو بھی جائز ہے۔
اختصار مذکور کی طرح امام کو تطویل کا بھی اختیار ہے، تاکہ لوگ رکعت پالیں لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بعد میں آنے والے کو امام اپنی دوستی یا رفاقت کی وجہ سے یہ رعایت دے۔
اس کے علاوہ بعض فقہاء نے یہ بھی شرط رکھی ہے کہ بعد میں شامل ہونے والوں کو تطویل کی رعایت دینا اس صورت میں ہے کہ پہلے سے شرکائے نماز کو اس کی تطویل سے تکلیف نہ ہو کیونکہ ان کا حق بعد میں آنے والوں سے زیادہ ہے۔
اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ تطویل کی رعایت دنیادار اور امراء طبقے کے لیے خاص نہ ہو۔
اگر ایسا کیا گیا تو بعض فقہاء نے اسے شرک تک قرار دیا ہے، کیونکہ اس طرح عبادت میں زیادتی غیراللہ کے لیے ہوگی جبکہ عبادت کا کچھ حصہ بھی غیر اللہ کے لیے جائز نہیں، تاہم نے جن حضرات نے اسے شرک قرار دیا ہے، اس سے مراد شرکِ اصغر، یعنی ریاکاری ہوسکتا ہے۔
(فتح الباري: 263/2)
والله أعلم۔
(2)
حضرت انس ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے محل تخفیف کی بھی نشاندہی کی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایسے حالات میں رسول اللہ ﷺ دوران قیام چھوٹی سورت پڑھ لیتے۔
بعض روایات میں اس کی مقدار بھی بیان ہوئی ہے کہ آپ پہلی رکعت میں لمبی سورت تلاوت فرماتے، پھر بچے کے رونے کی آواز سن کر دوسری رکعت میں تین آیات پڑھ کر رکوع میں چلے جاتے۔
یہ روایت اگرچہ مرسل ہے، تاہم تائید کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔
(فتح الباري: 262/2) (3)
امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں چند ایک متابعات کا بھی ذکر کیا ہے۔
ان میں سے بشر بن بکیر کی متابعت خود امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں موصولا بیان کی ہے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 868)
ابن مبارک کی روایت کو امام نسائی نے بیان کیا ہے جبکہ بقیہ بن ولید کی متابعت کا ہمیں علم نہیں ہوسکا۔
(فتح الباري: 262/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 707   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 789  
´کسی حادثہ کے پیش آ جانے پر نماز ہلکی کر دینے کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ اسے لمبی کروں پھر میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں، تو اسے مختصر کر دیتا ہوں، اس اندیشہ سے کہ میں اس کی ماں کو مشقت میں نہ ڈال دوں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 789]
789۔ اردو حاشیہ:
➊ نماز کو طویل کر کے خشوع و خضوع سے پڑھنا مستحب ہے، مگر امام کے لئے شرط ہے کہ اپنے مقتدیوں میں سے کمزور افراد کا خیال رکھے۔
➋ نماز میں کسی مستحب عمل کی نیت کر کے اسے پورا کرنا لازمی نہیں ہے، نیت میں اسی طرح کی تبدیلی جائز ہے۔ مثلاًً کسی نے قیام لمبا کرنے کی نیت کی تو اسے مختصر کر دیا، کھڑے ہو کر نفل پڑھنے کی نیت کی تو ضروری نہیں کہ کھڑے ہو کر مکمل کرے۔ بیٹھ کر بھی مکمل کر سکتا ہے۔
➌ عورتیں بھی جماعت میں شامل ہوں تو بہتر ہے اور چھوٹے بچوں کو بھی مسجد میں لایا جا سکتا ہے۔
➍ نماز کو ہلکا کرنے سے مراد یہ ہے کہ قرأت مختصر اور دیگر اذکار کو مناسب حد تک کم کر دیا جائے نہ کہ ارکان نماز کو جلدی جلدی اداکیا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 789   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 826  
´امام نماز کتنی ہلکی پڑھے؟`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں اور بچوں کا رونا سنتا ہوں تو اپنی نماز ہلکی کر دیتا ہوں، اس ڈر سے کہ میں اس کی ماں کو مشقت میں نہ ڈال دوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 826]
826 ۔ اردو حاشیہ:
➊ فرض نماز ہر ایک نے باجماعت پڑھنی ہوتی ہے لوگ ہر قسم کے ہوتے ہیں ان میں معذور بھی ہو سکتے ہیں فطرتاً کمزور بھی مریض وغیرہ بھی بوڑھے بھی بچے بھی بچوں والی عورتیں بھی کام کاج کرنے والے لوگ بھی اور مصروفیت والے بھی لہٰذا امام کو چاہیے کہ فرض نماز ہلکی پڑھائے۔ اس قدر کہ مندرجہ بالا نمازی بھی آسانی سے نماز ادا کرسکیں۔ دل تنگ نہ ہوں ورنہ نماز کا مقصد فوت ہو جائے گا البتہ نفل نماز جو ہر ایک پر ضروری نہیں بلکہ نشاط پر موقوف ہے اسے مناسب لمبا کیا جا سکتا ہے مگر اس قدر نہیں کہ نمازی نماز سے بیزار ہو جائے۔ تراویح اگرچہ فرض نہیں مگر امت مسلمہ کا شعار ہے لہٰذا اس میں بھی تخفیف ضروری ہے۔
➋ اکیلا آدمی اپنی چستی اور نشاط کے مطابق نماز لمبی کر سکتا ہے۔
➌ کسی مقتدی کی تکلیف کے مدنظر یا کسی حادثے کی بنا پر نماز مختصر کی جا سکتی ہے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر ہوا۔ اسی طرح نمازیوں کے مفاد میں نماز لمبی بھی کی جا سکتی ہے مثلا: کثیر لوگ وضو کر رہے ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی وجہ سے پہلی رکعت لمبی پڑھایا کرتے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 826   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 868  
868. حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز کو لمبا کروں، پھر کسی بچے کے رونے کی وجہ سے اسے مختصر کر دیتا ہوں مبادا اس کی ماں کو مشقت میں مبتلا کر دوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:868]
حدیث حاشیہ:
فأتجوز أي فأخفف قال ابن سابط التجوز ھھنا یراد به تقلیل القراءة والدلیل علیه مارواہ ابن أبي شیبة أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قرأ في الرکعة الأولی بسورة نحو ستین آیة فسمع بکاء صبي فقرأ في الثانیة بثلاث آیات ومطابقة الحدیث للترجمة تفھم من قوله کراھیة أن أشق علی أمة لأنه یدل علی حضور النساء إلی المساجد مع النبي صلی اللہ علیه وسلم وھو أعم من أن یکون باللیل أو بالنھار قاله العینی۔
(حاشیہ بخاری شریف، ص: 120)
یعنی یہاں تخفیف کرنے سے قرات میں تخفیف مراد ہے جیسا کہ ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ آنحضرت نے پہلی رکعت میں تقریباً ساٹھ آیتیں پڑھیں جب کسی بچے کارونا معلوم ہوا تو دوسری رکعت میں آپ نے صرف تین آیتوں پر اکتفافرمایااور باب اور حدیث میں مطابقت اس سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں عورتوں کی تکلیف کو مکروہ جانتاہوں۔
معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عورتیں مساجد میں حاضر ہوا کرتی تھیں رات ہو یا دن یہ عام ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 868