ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے زبیر بن عدی نے بیان کیا کہ، ہم انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے حجاج کے طرز عمل کی شکایت کی، انہوں نے کہا کہ صبر کرو کیونکہ تم پر جو دور بھی آتا ہے تو اس کے بعد آنے والا دور اس سے بھی برا ہو گا یہاں تک کہ تم اپنے رب سے جا ملو۔ میں نے یہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْفِتَنِ/حدیث: 7068]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7068
حدیث حاشیہ: اب یہ اعتراض نہ ہوگا کہ کبھی کبھی بعد کا زمانہ اگلے زمانہ سے بہتر ہو جاتا ہے مثلاً کوئی بادشاہ عادل اور متبع سنت پیدا ہو گیا جیسے عمر بن عبدالعزیز جس کا زمانہ حجاج کے بعد تھا وہ نہایت عادل اور متبع سنت تھے کیونکہ ایک آدھ شخص کے پیدا ہونے سے اس زمانہ کی فضیلت اگلے زمانہ پر لازم نہیں آتی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7068
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7068
حدیث حاشیہ: حدیث میں مذکور قاعدے کا اطلاق حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے دور پر نہیں ہوتا جو حجاج بن یوسف کے چند سالوں بعد آیا کیونکہ ان کے دور میں تمام خرابیاں دم توڑ گئیں تھیں اور لوگ بہت خوشحال تھے لیکن کچھ محدثین نے اس کلیے کو اغلبیت پر محمول کیا ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق بعد والے دور کے مقابلے میں پہلے دور کی برتری مجموعی اعتبار سے ہے حجاج بن یوسف کے دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کثرت تھی اور یہ کثرت حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں نہ تھی اور جس دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین موجود ہوں وہ اس دور سے افضل ہے۔ جس میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا فقدان ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میری اُمت کے لیے امن وسلامتی کی ضمانت ہیں، جب یہ ختم ہو جائیں گے تو اُمت ان حالات سے دوچار ہوگی جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ “(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6466(2531) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک اثر سے اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے، آپ نے فرمایا: بعد میں آنے والا دور پہلے سے بدتر ہوگا یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی، اس سے میری مراد مال ودولت کی فراوانی یا زندگی کی آسودگی نہیں ہے لیکن بعد میں آنے والا دور علم وعمل کے اعتبار سے کمتر ہوگا۔ جب علماء ختم ہو جائیں گے تو جہالت کے اعتبار سے سب لوگ یکساں ہوں گے اور بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے کے اہل نہیں ہوں گے تو اس وقت ان کی ہلاکت یقینی ہے۔ (فتح الباري: 27/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7068