الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب التَّعْبِيرِ
کتاب: خوابوں کی تعبیر کے بیان میں
26. بَابُ الْقَيْدِ فِي الْمَنَامِ:
26. باب: خواب میں قید (یعنی قیدی بننا) دیکھنا۔
حدیث نمبر: 7017
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَبَّاحٍ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، سَمِعْتُ عَوْفًا، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا اقْتَرَبَ الزَّمَانُ لَمْ تَكَدْ تَكْذِبُ رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ، وَرُؤْيَا الْمُؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ، وَمَا كَانَ مِنَ النُّبُوَّةِ فَإِنَّهُ لَا يَكْذِبُ"، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَأَنَا أَقُولُ هَذِهِ، قَالَ: وَكَانَ يُقَالُ: الرُّؤْيَا ثَلَاثٌ: حَدِيثُ النَّفْسِ، وَتَخْوِيفُ الشَّيْطَانِ، وَبُشْرَى مِنَ اللَّهِ، فَمَنْ رَأَى شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلَا يَقُصَّهُ عَلَى أَحَدٍ، وَلْيَقُمْ فَلْيُصَلِّ، قَالَ: وَكَانَ يُكْرَهُ الْغُلُّ فِي النَّوْمِ، وَكَانَ يُعْجِبُهُمُ الْقَيْدُ، وَيُقَالُ: الْقَيْدُ ثَبَاتٌ فِي الدِّينِ، وَرَوَى قَتَادَةُ، وَيُونُسُ، وَهِشَامٌ، وَأَبُو هِلَالٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَدْرَجَهُ بَعْضُهُمْ كُلَّهُ فِي الْحَدِيثِ، وَحَدِيثُ عَوْفٍ أَبْيَنُ، وَقَالَ يُونُسُ: لَا أَحْسِبُهُ إِلَّا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَيْدِ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: لَا تَكُونُ الْأَغْلَالُ إِلَّا فِي الْأَعْنَاقِ.
ہم سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا میں نے عوف سے سنا، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب قیامت قریب ہو گی تو مومن کا خواب جھوٹا نہیں ہو گا اور مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ محمد بن سیرین رحمہ اللہ (جو کہ علم تعبیر کے بہت بڑے عالم تھے) نے کہا کہ نبوت کا حصہ جھوٹ نہیں ہو سکتا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ خواب تین طرح کے ہیں۔ دل کے خیالات، شیطان کا ڈرانا اور اللہ کی طرف سے خوشخبری۔ پس اگر کوئی شخص خواب میں بری چیز دیکھتا ہے تو اسے چاہئیے کہ اس کا ذکر کسی سے نہ کرے اور کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ محمد بن سیرین نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خواب میں طوق کو ناپسند کرتے تھے اور قید دیکھنے کو اچھا سمجھتے تھے اور کہا گیا ہے کہ قید سے مراد دین میں ثابت قدمی ہے۔ اور قتادہ، یونس، ہشام اور ابوہلال نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ اور بعض نے یہ ساری روایت حدیث میں شمار کی ہے لیکن عوف کی روایت زیادہ واضح ہے اور یونس نے کہا کہ قید کے بارے میں روایت کو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہی سمجھتا ہوں۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ طوق ہمیشہ گردنوں ہی میں ہوتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّعْبِيرِ/حدیث: 7017]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريإذا اقترب الزمان لم تكد تكذب رؤيا المؤمن رؤيا المؤمن جزء من ستة وأربعين جزءا من النبوة ما كان من النبوة فإنه لا يكذب
   صحيح مسلمإذا اقترب الزمان لم تكد رؤيا المسلم تكذب أصدقكم رؤيا أصدقكم حديثا رؤيا المسلم جزء من خمس وأربعين جزءا من النبوة الرؤيا ثلاثة فرؤيا الصالحة بشرى من الله رؤيا تحزين من الشيطان رؤيا مما يحدث المرء نفسه إن رأى أحدكم ما يكره فليقم فليصل ولا يحدث بها الناس
   جامع الترمذيإذا اقترب الزمان لم تكد رؤيا المؤمن تكذب أصدقهم رؤيا أصدقهم حديثا رؤيا المسلم جزء من ستة وأربعين جزءا من النبوة الرؤيا ثلاث فالرؤيا الصالحة بشرى من الله والرؤيا من تحزين الشيطان الرؤيا مما يحدث بها الرجل نفسه إذا رأى أحدكم ما يكره فليقم فليتفل ولا يحدث به
   جامع الترمذيفي آخر الزمان لا تكاد رؤيا المؤمن تكذب أصدقهم رؤيا أصدقهم حديثا الرؤيا ثلاث الحسنة بشرى من الله الرؤيا يحدث الرجل بها نفسه الرؤيا تحزين من الشيطان فإذا رأى أحدكم رؤيا يكرهها فلا يحدث بها أحدا وليقم فليصل
   جامع الترمذييعجبني القيد أكره الغل القيد ثبات في الدين
   سنن أبي داودإذا اقترب الزمان لم تكد رؤيا المؤمن أن تكذب أصدقهم رؤيا أصدقهم حديثا الرؤيا ثلاث فالرؤيا الصالحة بشرى من الله رؤيا تحزين من الشيطان رؤيا مما يحدث به المرء نفسه فإذا رأى أحدكم ما يكره فليقم فليصل ولا يحدث بها الناس أحب القيد أكره الغل
   سنن ابن ماجهأكره الغل أحب القيد القيد ثبات في الدين
   سنن ابن ماجهإذا قرب الزمان لم تكد رؤيا المؤمن تكذب أصدقهم رؤيا أصدقهم حديثا رؤيا المؤمن جزء من ستة وأربعين جزءا من النبوة
   مسندالحميديإذا رأى أحدكم رؤيا يكرهها، فليصل ركعتين، ولا يخبر بها أحدا، فإنها لن تضره

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7017 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7017  
حدیث حاشیہ:
اور بیڑیاں ہاتھوں میں۔
آیت غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ میں ہاتھوں کی بیڑیاں مذکور ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7017   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7017  
حدیث حاشیہ:

قرب قیامت کے وقت مومن انسان کا کوئی غمخوار نہیں ہوگا تو اچھے خوابوں کے ذریعے سے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

اس حدیث میں خواب کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں۔
نفسانی خیالات:
بیداری کے وقت جو خیالات ذہن میں ہوں وہی خواب میں سامنے آ جاتے ہیں۔
شیطانی خواب:
شیطان در اندازی کر کے انسان کو پریشان اور فکر مند کرتا ہے۔
بشارت:
اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت اور خوشخبری ہوتی ہیں اور باعث خیرو برکت قرار دے جاتے ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے چند ایک دوسرے خواب ذکر کیے ہیں۔
مثلاً:
شیطان کا کھیلنا:
جیسا کہ آدمی بے تکے خواب دیکھے کہ اس کا سر کٹا ہوا ہے اور وہ آدمی اس کٹے ہوئے سر کے پیچھے بھاگتا ہے۔
اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطانی کھیل قرار دیا ہے۔
انسانی عادت:
انسان روٹی کھاتے کھاتے مر گیا تو حسب عادت وہ خواب میں روٹی کھائے گا یا بھوکا سویا ہے توخواب میں قے کرتا ہوا نظر آئے گا۔
مزاج کا مدد جزر:
اگر کوئی شخص خود کو پانی میں تیرتا یا برف دیکھتا ہے تو ایسا بلغم کے اضافے کی وجہ سے ہو گا۔
یعنی اخلاط (بدن کی چار رطوبتیں جو غذا تحلیل ہونے سے پیدا ہوتی ہیں)
کی کمی بیشی بھی خواب پر اثر انداز ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 12/509)

بہر حال خواب میں طوق دیکھنا اچھا نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اہل جہنم کی صفت قرار دیا ہے اور پاؤں میں بیڑی کو پسند کیا گیا ہے کہ اس سے انسان چل پھر نہیں سکتا۔
گویا نا فرمانی، گناہوں اور باطل سے رک جانےکی طرف اشارہ ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7017   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5019  
´خواب کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب زمانہ قریب ہو جائے گا، تو مومن کا خواب جھوٹا نہ ہو گا، اور ان میں سب سے زیادہ سچا خواب اسی کا ہو گا، جو ان میں گفتگو میں سب سے سچا ہو گا، خواب تین طرح کے ہوتے ہیں: بہتر اور اچھے خواب اللہ کی جانب سے خوشخبری ہوتے ہیں اور کچھ خواب شیطان کی طرف سے تکلیف و رنج کا باعث ہوتے ہیں، اور کچھ خواب آدمی کے دل کے خیالات ہوتے ہیں لہٰذا جب تم میں سے کوئی (خواب میں) ناپسندیدہ بات دیکھے تو چاہیئے کہ اٹھ کر نماز پڑھ لے اور اسے لوگوں سے بیان نہ کرے، فرمایا: میں قید (پیر میں بیڑی پہننے) کو (خواب میں)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 5019]
فوائد ومسائل:
کسی پریشان کن اور بُرےخواب دیکھنے کی صورت میں اس کی نحوست سے بچنے کےلئے انسان کو تعوذ پڑھتے ہوئے اپنی بایئں طرف تھوکنا اور پہلو بھی بدل لینا چاہیے۔
اور سب سے افضل یہ ہے کہ انسان نماز پڑھے۔
اور خواب کسی سے بیان نہ کرے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5019   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3917  
´جو شخص جتنا ہی زیادہ سچا ہو گا اسی قدر اس کا خواب بھی سچا ہو گا۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب قیامت قریب آ جائے گی تو مومن کے خواب کم ہی جھوٹے ہوں گے، اور جو شخص جتنا ہی بات میں سچا ہو گا اتنا ہی اس کا خواب سچا ہو گا، کیونکہ مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3917]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قیامت کے قریب کفر، فسق اور جہالت کا غلبہ ہوگا۔
سچے مومن بہت کم ہونگے۔
ان مومنوں کے خواب سچے ہوں گے۔

(2)
بعض علماء نے اس سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا زمانہ لیا ہے البتہ حافظ ابن حجر ؒ نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے۔ (فتح الباري: 12/ 508)
نیک آدمی کے خواب زیادہ سچے ہوتے ہیں۔

(3)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ مذکورہ روایت کا اکثر حصہ صحیح بخاری  اور صحیح مسلم میں ہے جیسا کہ تخریج میں ہمارے محقق نے بھی اشارہ کیا ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف اور معناً صحیح ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3917   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3926  
´خواب کی تعبیر کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں خواب میں گلے میں زنجیر اور طوق دیکھنے کو ناپسند کرتا ہوں، اور پاؤں میں بیڑی دیکھنے کو پسند کرتا ہوں، کیونکہ بیڑی کی تعبیر دین میں ثابت قدمی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3926]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے اور دیگر محققین نے ضعیف قراردیا ہے۔
اس روایت کی بابت اکثر محققین کی رائے ہے کہ یہ روایت مرفوعاً ضعیف ہے موقوفاً صحیح ہے جیساکہ ہمارے فاضل محقق نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا قول نہیں بلکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ضعیف سن ابن ماجة، رقم: 784 وسنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشار عواد رقم: 3926)

(2)
حافظ ابن حجر حمة الله عليہ نے امام قرطبی ؒ کا قول نقل فرمایا ہے کہ جس کے پاؤں میں بیڑی ہو وہ ایک جگہ ٹھرا رہتا ہے اس لیے اگر دین دار نیک آدمی خواب میں اپنے پاؤں میں بیڑی دیکھتا ہے تو اس کا مطلب اس کا نیکی اور ہدایت پر قائم رہنا ہی ہوگا۔
اور طوق کا ذکر قرآن میں سزا اور ذلت کے طور پر آیا ہے اس لیے اس سے دین کا نقص گناہ پر اصرار اور کسی حق دار کے حق کی ادائیگی سے گریز یا دنیا کی مشکلات مراد ہوسکتی ہیں۔ دیکھیے: (فتح الباري، التعبير، باب القيد في المنام: 12/ 505)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3926   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2270  
´مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب زمانہ قریب ہو جائے گا ۱؎ تو مومن کے خواب کم ہی جھوٹے ہوں گے، ان میں سب سے زیادہ سچے خواب والا وہ ہو گا جس کی باتیں زیادہ سچی ہوں گی، مسلمان کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے ۲؎ خواب تین قسم کے ہوتے ہیں، بہتر اور اچھے خواب اللہ کی طرف سے بشارت ہوتے ہیں، کچھ خواب شیطان کی طرف سے تکلیف و رنج کا باعث ہوتے ہیں، اور کچھ خواب آدمی کے دل کے خیالات ہوتے ہیں، لہٰذا جب تم میں سے کوئی ایسا خواب دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہے تو کھڑا ہو کر تھوکے اور اسے لوگوں سے نہ بیان کرے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الرؤيا/حدیث: 2270]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
زمانہ قریب ہو نے کا مطلب تین طرح سے بیان کیا جاتا ہے:
پہلا مطلب یہ ہے کہ اس سے مراد قرب قیامت ہے اور اس وقت کا خواب کثرت سے صحیح اورسچ ثابت ہوگا،
دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس سے مراد دن اور رات کا برابرہونا ہے،
تیسرا مطلب یہ ہے کہ اس سے مراد زمانہ کا چھوٹا ہونا ہے یعنی ایک سال ایک ماہ کے برابر،
ایک ماہ ہفتہ کے برابراورایک ہفتہ ایک دن کے برابر اور ایک دن ایک گھڑی کے برابرہوگا۔

2؎:
اس کے دومفہوم ہوسکتے ہیں:
پہلا مفہوم یہ ہے کہ مومن کا خواب صحیح اورسچ ہوتا ہے،
دوسرامفہوم یہ ہے کہ ابتدائی دور میں چھ ما ہ تک آپ کے پاس وحی خواب کی شکل میں آتی تھی،
یہ مدت آپ کی نبوت کے کامل مدت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے اس طرح سچاخواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ بنتا ہے۔

3؎:
کیونکہ طوق پہننے سے اشارہ قرض داررہنے،
کسی کے مظالم کا شکاربننے اورمحکوم علیہ ہونے کی جانب ہوتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2270   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1179  
1179- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جب کوئی شخص کوئی ایسا خواب دیکھے جواسے اچھا نہ لگے، تو وہ دورکعت ادا کرلے اور اس خواب کے بارے میں کسی کو نہ بتائے تو وہ خواب اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1179]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیک اور اچھے بندے کو بھی گندے سے گندے خواب آ جاتے ہیں، کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ واقعہ ضرور پیش آیا ہوگا، تب آپ نے ایسے خوابوں کے بارے میں ارشادات جاری فرمائیں ہوں گے، اور صحابہ سے بڑھ کر کوئی نیک نہیں ہوسکتا۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کو یاد کر نے سے برائی جاتی رہتی ہے، اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ برا خواب تعبیر بتانے والے کے علاوہ کسی کو نہیں بتانا چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1177   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5905  
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب زمانہ قریب ہوجائے گا، مسلمان کا خواب جھوٹا نہیں ہوگا اور سب سےاچھا خواب تم میں سے اسی کا ہوگا، جو سب سے سچا ہو گا اور مسلمان کا خواب، نبوت کے اجزاء میں سے پنتالیسواں جز ہے، اور خواب تین قسم کے ہیں، اچھا خواب تو اللہ کی طرف سے بشارت ہے اور ایک خواب شیطان کی طرف سے غم زدہ کرنے کے لیے ہوتا ہے اور ایک خواب وہ ہے جو انسان کی خود کلامی کا نتیجہ ہے، یعنی اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5905]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اذا اقترب الزمان جب زمانہ قریب ہو جائے گا،
کی تفسیر میں مندرجہ ذیل اقوال ہیں: 1۔
اس سے مراد دن اور رات کا موسم بہار میں تقریبا برابر برابر ہونا ہے،
جب کہ انسان کی چاروں خلطیں،
خون،
بلغم،
سودا اور سفراء کے اعتدال و توازن کی وجہ سے طباع میں اعتدال ہوتا ہے تو خواب بھی سچے نظر آتے ہیں۔

جب وقوع قیامت کا زمانہ قریب آجائے گا،
اصحاب علم و فضل بہت کم رہ جائیں گے۔
فتنہ و فساد کے باعث دین کے آثار اور امتیازات مت جائیں گے اور مسلمان دینی معلومات کے محتاج ہوں گے تو ایسے حالات میں سچے خوابوں کے ذریعہ ان کی رہنمائی کی جائے گی۔

قرب قیامت کی بنا پر جب زمانہ بہت تیزی سے گزرے گا،
سال،
مہینہ کے برابر محسوس ہو گا اور ماہ،
ہفتہ کے برابر ہو گا اور ہفتہ ایک دن کی طرح گزر جائے گا۔

مہدی علیہ السلام کے نزول کے سبب دنیا میں عدل و انصاف اور امن و سکون برپا ہو گا اور رزق کی فروانی اور خشحالی کی بنا پر،
گزرنے والے دنوں کو پتہ ہی نہیں چلے گا۔

عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ رہنے والے لوگ،
جن میں آپس میں پیارو محبت ہو گا،
عداوت و نفرت ختم ہو جائے گی اور وہ سچ بولیں گے،
ان کے خواب بھی سچے ہوں گے اور ان کا خواب جھوٹا نہیں ہوگا،
کیونکہ جب کاد پر نفی داخل ہو تو اس سے مراد بالکلیہ نفی ہوتی ہے کہ یہ نہیں ہوگا،
اس لیے لم تکدرؤیا المسلم تکذب کا معنی ہو گا۔
صحیح مسلمانوں کا کوئی خواب جھوٹا نہیں ہوگا،
اصدقكم رُويا اصدقكم حديثا تم میں سے سچے خواب انہیں کے ہوں گے،
جو سچ بولتے ہوں گے،
کیونکہ سچا مسلمان جھوٹ نہیں بولتا،
اس لیے اس کا دل روشن ہوتا ہے اور علم و شعور اور آگاہی کا ملکہ صحیح ہوتا ہے،
اس لیے اس پر صحیح باتوں کا عکس پڑتا ہے،
جھوٹے کا دل فاسد اور سیاہ ہوتا ہے،
اس لیے اس پر معانی اور مطالب کا صحیح عکس نہیں پڑتا،
اس لیے اس کا خواب بھی عموما پراگندہ خیالی پر مبنی ہوتا ہے،
سچے انسان کا خواب بہت کم پراگندہ خیالی کا شکار ہوتا ہے۔
رويا المسلم جزء من خمس واربعين جزأ من النبوة صحیح مسلمان کا خواب نبوت کو پینتالیسواں حصہ ہے،
عام روایات کی رو سے چھیالیسواں حصہ ہے،
بعض کی رو سے سترھواں حصہ ہے،
بعض روایات میں اس سے کم و بیش حصے آئے ہیں اور بقول حافظ ابن حجر رحمُہ اللہ اس میں پندرہ اقوال آئے ہیں،
اللہ تعالیٰ کا نبی بہت سی صفات سے متصف ہوتا ہے اور اس کی ایک صفت یہ بھی ہے،
اس کو سچے خواب نظر آتے ہیں،
جن کے ذریعہ اس کو کس چیز کا قطعی اور یقینی علم دے دیا جاتا ہے اور اب بھی بعض سچے مسلمانوں کو خواب کے ذریعہ صحیح معلومات سے آگاہ کر دیا جاتا ہے،
لیکن اس میں قطعیت اور یقین نہیں ہوتا اور خواب دیکھنے والے کے اعتبار سے اس کے اندر یقین ووثوق کی نسبت بدلتی رہتی ہے،
اس لیے آپ نے بھی مختلف نسبتیں بیان کی ہیں،
لیکن یہ بات طے ہے کسی کے اندر،
اگر نبوت کا کوئی وصف کمی و بیشی کے ساتھ پایا جاتا ہے تو وہ نبی نہیں بن جاتا،
بعج حیوانوں میں انسان کی بعض صفات پائی جاتی ہیں تو وہ انسان نہیں بن جاتے،
جس طرح بعض انسانوں میں حیوانی صفات پائی جاتی ہیں تو وہ حیوان نہیں بن جاتے اور عام طور پر علماء نے چھیالیسویں حصہ کو ترجیح دی ہے،
کیونکہ آپ کے تئیس سال دور نبوت سے پہلے،
چھ ماہ آپ کو سچے خواب نظر آتے رہے ہیں،
پھر وہی کا آغاز ہوا،
اس طرح خوابوں کی نسبت چھیالیسواں حصہ ٹھہرے۔
'
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5905