الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْحِيَلِ
کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
14. بَابٌ في الْهِبَةِ وَالشُّفْعَةِ:
14. باب: ہبہ پھیر لینے یا شفعہ کا حق ساقط کرنے کے لیے حیلہ کرنا مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 6978
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، أَنَّ سَعْدًا سَاوَمَهُ بَيْتًا بِأَرْبَعِ مِائَةِ مِثْقَالٍ، فَقَالَ:" لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: الْجَارُ أَحَقُّ بِصَقَبِهِ"، لَمَا أَعْطَيْتُكَ، وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: إِنِ اشْتَرَى نَصِيبَ دَارٍ فَأَرَادَ أَنْ يُبْطِلَ الشُّفْعَةَ، وَهَبَ لِابْنِهِ الصَّغِيرِ، وَلَا يَكُونُ عَلَيْهِ يَمِينٌ.
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن میسرہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن شرید نے، ان سے ابورافع نے کہ سعد رضی اللہ عنہ نے ان کے ایک گھر کی چار سو مثقال قیمت لگائی تو انہوں نے کہا کہ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی اپنے پڑوس کا زیادہ مستحق ہے تو میں اسے تمہیں نہ دیتا۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے کسی گھر کا حصہ خریدا اور چاہا کہ اس کا حق شفہ باطل کر دے تو اسے اس گھر کو اپنے چھوٹے بیٹے کو ہبہ کر دینا چاہیے، اب نابالغ پر قسم بھی نہیں ہو گی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحِيَلِ/حدیث: 6978]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريالجار أحق بصقبه
   صحيح البخاريالجار أحق بصقبه
   صحيح البخاريالجار أحق بصقبه ما بعتكه أو قال ما أعطيتكه
   صحيح البخاريالجار أحق بصقبه
   صحيح البخاريالجار أحق بسقبه ما أعطيتكها بأربعة آلاف وأنا أعطى بها خمس مائة دينار فأعطاها إياه
   سنن أبي داودالجار أحق بسقبه
   سنن النسائى الصغرىالجار أحق بسقبه
   سنن ابن ماجهالجار أحق بسقبه
   سنن ابن ماجهالشريك أحق بسقبه ما كان
   بلوغ المرام الجار أحق بصقبه
   مسندالحميديالجار أحق بسقبه ما بعتك

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6978 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6978  
حدیث حاشیہ:
اور اس حیلہ سے آسانی سے حق شفعہ ختم ہو جائے گا کیوکہ نابالغ پر قسم بھی نہ آئے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6978   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6978  
حدیث حاشیہ:

حیلہ سازوں کی طرف سے حیلے کے ذریعے سے کسی کا حق شفعہ غیر مؤثر کرنے کی یہ تیسری صورت ہے جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ وہ خریدا ہوا مکان اپنے کسی نابالغ بیٹے کو ہبہ کر دے پھر کوئی بھی نابالغ بیٹے سے ہبہ کے ثبوت کے لیے قسم کا مطالبہ نہیں کرے گا۔
کیونکہ اس حالت میں اس پر قسم واجب نہیں ہے۔

دراصل حیلہ ساز بڑے زیرک اور چالاک ہیں اس صورت میں ہبہ کے لیے چھوٹے بیٹے کا انتخاب کیا ہےاس کے دو فائدے ہیں۔
اپنا بچہ ہونے کی وجہ سے وہ گھر خریدار ہی کے تصرف میں رہے گا۔
کوئی دوسرا اس پر قابض نہیں ہوگا۔
اس پر حلف نہیں ہے کہ تم قسم دو کہ تمھارے والد نے ہبہ کی نیت سے تجھے یہ گھر دیا ہے محض شفعے سے بچنے کے لیے حیلہ کیا ہے۔
اگر بڑے بیٹے کا انتخاب کیا جاتا تو اس سے حلف بھی لیا جا سکتا تھا کہ یہ حقیقت کے طور پر ہبہ ہے جو اپنی شرائط کے مطابق میرے لیے جاری ہوا ہے۔
اگر ایسا حلف دے دیا۔
تو یہ حلف کاذب ہے جس کی بنا پر حق شفعہ ختم کرنے کا حیلہ کامل نہ ہوگا۔

اگر کسی اجنبی کے چھوٹے بیٹے کو ہبہ کرے تب بھی حیلہ تام نہ ہوگا۔
کیونکہ اس صورت میں وہ گھر خریدنے والے کے تصرف سے نکل جائے گا۔
اور حیلے سے جو مقصود ہے وہ پورا نہیں ہو گا بہر حال اس حیلے سے ایک آدمی کو اس کے حق سے محروم کرنا ہے اس لیے ناجائز اور حرام ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث پیش کی ہے کہ انھوں نے حق شفعہ غیر مؤثر کرنے کے لیے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا بلکہ حق شفعہ پیش نظر فوراً شفعہ کرنے والے کے ہاں فروخت کر دیا اگرچہ اس میں انھیں کچھ نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6978   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4706  
´شفعہ اور اس کے احکام کا بیان۔`
ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی اپنے پڑوس کا زیادہ حقدار ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4706]
اردو حاشہ:
سنن اور مسند احمد میں حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسی مفہوم کی روایت ہے۔ اس میں یہ شرط بھی ہے بشرطیکہ ان کا راستہ ایک ہو۔ (مسند احمد: 3/ 303، وسنن ابی داود، الاجارۃ، حدیث: 3518) گویا پڑوسی کو بھی شفعہ کا حق ہے اگر وہ راستے وغیرہ میں شریک ہو۔ اس طرح تمام روایات پر عمل ہو جائے گا۔ بعض حضرات نے صرف پڑوسی کو بھی شفعہ کا حق دیا ہے، خواہ وہ کسی لحاظ سے بھی شریک نہ ہو لیکن اس سے صحیحین کی متفقہ روایات کی خلاف ورزی ہوگی جن میں تقسیم اور راستے الگ الگ ہونے کے بعد شفعہ کی صراحتاً نفی کی گئی ہے۔ (مثلاً: دیکھیے، حدیث: 4708) شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے شفعہ کی دو قسمیں قرار دی ہیں: شفعہ واجب اور شفعہ مستحب۔ شفعہ واجب تو شریک کے لیے ہی ہے، خواہ اصل چیز میں شریک ہو یا راستے وغیرہ میں۔ صرف پڑوسی جو کسی بھی لحاظ سے شریک نہ ہو، وہ شفعہ مستحب کا حق دار ہے، یعنی اچھی بات ہے کہ فروخت کرنے سے پہلے پڑوسی سے بھی پوچھ لیا جائے، ضروری نہیں۔ وہ عدالت میں دعویٰ بھی نہیں کر سکتا اور اس کے کہنے سے بیع فسخ بھی نہیں ہو سکتی جبکہ شریک سے پوچھ لینا ضروری ہے ورنہ عدالت میں یہ دعویٰ کر کے بیع فسخ کروا سکتا ہے۔ یہ تطبیق بھی مناسب ہے۔ واللہ أعلم (باقی تفصیل دیکھیے، حدیث: 4650)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4706   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:562  
562- عمرو بن شرید بیان کرتے ہیں: سیدنا مسور بن مخزمہ رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور بولے: تم میرے ساتھ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس چلو، میں ان کے ساتھ گیا، ان کا ایک ہاتھ میرے کندھے پر تھا۔ سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور انہوں نے سیدنا مسور بن مخزمہ رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ انہیں یعنی سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو یہ نہیں کہتے کہ وہ اپنے محلے میں موجود میرا گھر خرید لیں، تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ بولے: نہیں! اللہ کی قسم! میں چار سو دینار سے زیادہ ادائیگی نہیں کروں گا، اور وہ ادائیگی بھی قسطوں میں ہوگی (یہاں لفظ کے بارے میں راوی کو شک ہے) راوی کہتے ہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:562]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جب کسی نے کوئی چیز فروخت کرنی ہو تو اس کو خریدنے کا زیادہ حق دار اس کا ہمسایہ ہے۔ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: بعض لوگ کہتے ہیں جب کوئی اپنا مکان فروخت کرنے کا ارادہ کرے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ حیلہ کرے اور شفعہ کو غیر مؤثر کرے۔ وہ اس طرح کہ بیچنے والا، خریدار کو وہ مکان ہبہ کر دے اور اس کی حد بندی کر کے اس کے حوالے کر دے۔ پھر خریدار اس ہبہ کے معاوضے میں مالک کو ایک ہزار بطور معاوضہ ادا کر دے اس طرح شفعہ کر نے والے کو اس میں شفعہ کا حق نہیں رہے گا۔
یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جو حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے لیے ثابت کیا ہے اسے کسی قسم کے حیلے سے ساقط نہیں کیا جا سکتا۔ [فتح الباري:435/12]
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 562   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6980  
6980. حضرت ابو رافع ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: پڑوسی اپنی ہمسائیگی کی وجہ سے زیادہ حق دار ہے۔ (اس کے باوجود) بعض لوگوں نے کہا ہے: اگر کسی نے بیس ہزار درہم میں مکان خریدا تو (اسقاط حق شفعہ کے لیے) کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ بیس ہزار درہم کا سودا کرے لے، پھر مکان کے مالک نو ہزار نو سو ننانوے درہم نقد دے دے اور بیس ہزار میں سے باقی (دس ہزار ایک درہم کے عوض اسے ایک دینار دے۔ اس صورت میں اگر شفعہ کرنے والا اس مکان کے سلسلے میں کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ پھر اگر مکان اور حق دار نکل آیا تو خریدار، فروخت کرنے والے سے وہی رقم واپس لے گا جو اس نے دی ہے اور نو ہزار سو ننانوے درہم اور ایک دینار ہے کیونکہ اس گھر کا جب اور کوئی حق دار نکل آیا تو بیع صرف جو دینار کے متعلق ہوئی تھی ختم ہو گئی۔ اور اگر اس گھر میں کوئی عیب ثابت ہوا اور اس کا کوئی دوسرا حق دار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6980]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب البیوع میں غداء بن خادل کی روایت سے گزر چکی ہے۔
امام بخاری نے اس مسئلہ میں ان بعض لوگوں پر دو اعتراض کئے ہیں ایک تو مسلمانوں کے آپس میں فریب اور دغا بازی کو جائز رکھنا دوسرے ترجیح بلا مرحج کہ استحقاق کی صورت میں تو مشتری صرف نو ہزار نو سو ننانوے درہم اور ایک دینار پھیر سکتا ہے اور عیب کی صورت میں پورے بیس ہزار پھیر سکتا ہے۔
حالانکہ بیس ہزار اس نے دئیے ہی نہیں۔
صحیح مذہب اس مسئلہ میں اہل حدیث کا ہے کہ مشتری عیب یا استحقاق ہر دو صورتوں میں بائغ سے وہی ثمن پھیر لے گا جو اس نے بائع کو دیا ہے یعنی نو ہزار نو سو نناونے درہم اور ایک درہم اور شفیع بھی اس قدر رقم دے کر اس جائداد کو مشتری سے لے سکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6980   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6981  
6981. حضرت عمرو بن شرید سے روایت ہے کہ حضرت ابو رافع ؓ نے حضرت سعد بن مالک ؓ کو ایک گھر چار سو مثقال میں فرووخت کیا اور فرمایا: اگر میں نے نبی ﷺ سے یہ بات نہ سنی ہوتی کہ پڑوسی ہمسائیگی کا زیادہ حق دار ہے۔ تو میں آپ کو یہ گھر فروخت نہ کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6981]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابو رافع نے حق جوار کی ادائیگی میں کسی حیلہ بہانے کو آڑ نہیں بنا یا۔
صحابہ کرام اور جملہ سلف صالحین کا یہی طرز عمل تھا وہ حیلوں بہانوں کی تلاش نہیں کرتے اور احکام شرع کو بجا لانا اپنی سعادت جانتے تھے۔
کتاب الحیل کو اسی آگاہی کے لیے اس حدیث پر ختم کیا گیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6981   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2258  
2258. حضرت عمرو بن شرید سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے پاس کھڑا تھاکہ حضرت مسور بن مخرمہ ؓ آئے اورانھوں نے اپنا ایک ہاتھ میرے کندھے پر رکھا۔ اتنے میں حضرت ابو رافع ؓ جو نبی کریم ﷺ کے آزاد کردہ تھے آئے اور کہا: اے سعد!تم میرے دونوں مکان جو تمہارے محلے میں واقع ہیں مجھ سے خرید لو۔ حضرت سعد ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تو نہیں خریدتا۔ حضرت مسور ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! تمھیں یہ مکان خریدنا ہوں گے۔ تب حضرت سعد ؓ نے کہا: میں تمھیں چار ہزار (درہم) سے زیادہ نہیں دوں گا اور وہ بھی بالاقساط ادائیگی کروں گا۔ حضرت ابو رافع ؓ نے کہا: مجھے تو ان گھروں کے پانچ صد دینار ملتے ہیں، اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہپڑوسی اپنے قریب کی وجہ سے زیادہ حقدار ہے تو میں تمھیں چار ہزار درہم میں ہرگز نہ دیتا خصوصاً جبکہ مجھے پانچ صد دینار مل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2258]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث بظاہر حنفیہ کی دلیل ہے کہ ہمسایہ کو شفع کا حق ہے۔
شافعیہ اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ مراد وہی ہمسایہ ہے جو جائیداد مبیعہ میں بھی شریک ہوتا کہ حدیثوں میں اختلاف باقی نہ رہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2258   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6977  
6977. حضرت عمرو بن شرید سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت مسور بن مخرمہ ؓ آئے اور انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، پھر میں ان کے ساتھ حضرت سعد بن مالک کے پاس گیا۔ (وہاں) ابو رافع نے حضرت مسور سے کہا: کیا تم حضرت سعد ؓ سے میری سفارش نہیں کرتے کہ وہ میرا مکان خرید لیں جو میری حویلی میں ہے؟ انہوں نے کہا: میں تو چار سو درہم سے زیادہ نہیں دوں گا اور وہ بھی قسطوں میں ادا کروں گا۔ ابو رافع نے کہا: مجھے تو اس کے پانچ سو نقد مل رہے تھے لیکن میں نے انکار کر دیا۔ اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا نہ ہوتا: ہمسایہ اپنے قرب کے باعث زیادہ حق دار ہے۔ تو میں تو تمہیں یہ مکان فروخت نہ کرتا یا تجھے نہ دیتا۔ (راوی کہتا ہے کہ) میں نے سفیان بن عینیہ سے پوچھا کہ معمر نے تو اس طرح بیان نہیں کیا۔ سفیان نے کہا: لیکن مجھے تو ابراہیم بن میسرہ نے یہ حدیث اسی طرح نقل کی ہے۔ بعض لوگ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6977]
حدیث حاشیہ:
کیونکہ شفعہ بیع میں ہوتا ہے نہ کہ ہبہ میں۔
ہم کہتے ہیں کہ ہبہ بالعوض بھی بیع کے حکم میں ہے تو شفیع کا حق شفعہ قائم رہنا چاہیے اور ایسا حیلہ کرنا بالکل نا جائز ہے۔
اس میں مالک کی حق تلفی کا ارادہ کرنا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ایسے ہبہ سے جس میں کسی کا نقصان نظر آرہا ہے بیچیں اور ایسے ناجائز حیلوں سے دور رہیں اور اس حدیث پر عمل کریں جو بالکل واضح اور صاف ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6977   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2258  
2258. حضرت عمرو بن شرید سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے پاس کھڑا تھاکہ حضرت مسور بن مخرمہ ؓ آئے اورانھوں نے اپنا ایک ہاتھ میرے کندھے پر رکھا۔ اتنے میں حضرت ابو رافع ؓ جو نبی کریم ﷺ کے آزاد کردہ تھے آئے اور کہا: اے سعد!تم میرے دونوں مکان جو تمہارے محلے میں واقع ہیں مجھ سے خرید لو۔ حضرت سعد ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تو نہیں خریدتا۔ حضرت مسور ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! تمھیں یہ مکان خریدنا ہوں گے۔ تب حضرت سعد ؓ نے کہا: میں تمھیں چار ہزار (درہم) سے زیادہ نہیں دوں گا اور وہ بھی بالاقساط ادائیگی کروں گا۔ حضرت ابو رافع ؓ نے کہا: مجھے تو ان گھروں کے پانچ صد دینار ملتے ہیں، اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہپڑوسی اپنے قریب کی وجہ سے زیادہ حقدار ہے تو میں تمھیں چار ہزار درہم میں ہرگز نہ دیتا خصوصاً جبکہ مجھے پانچ صد دینار مل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2258]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے قبل ازیں اثبات شفعہ کے اسباب بتائے تھے اور اس عنوان میں اسقاط شفعہ کے اسباب سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔
ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب ایک شریک دوسرے پر شفعہ پیش کرے اور وہ نہ لے تو ایسا کرنے سے حق شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔
لیکن کچھ فقہاء کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے اس کا حق شفعہ ساقط نہیں ہوگا کیونکہ شفعہ تو ابھی واجب ہی نہیں ہوا۔
وہ بیع کے بعد واجب ہوتا ہے،اس لیے بیع سے پہلے یا بیع کے وقت اس کا جازت دینا کارگر نہیں ہوگا۔
لیکن یہ موقف صریح طور پر حدیث کے خلاف ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
شریک کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے دوسرے شریک کو اطلاع دیے بغیر اسے فروخت کردے اگر وہ چاہے تو اسے رکھ لے اور اگر چاہے تو اسے چھوڑ دے۔
(مسند أحمد: 316/3)
جب اطلاع دینے کے بعد شریک نے اسے نہیں رکھا تو حق شفعہ کس چیز کا باقی رہا۔
اسی طرح جب شفعہ کرنے والے نے مشتری سے مشفوعہ خرید لیا ہویا خریداری کےلیے بات چیت کرے یا اس سے کرائے پر حاصل کرے یا وہ اپنا حصہ جس کے ذریعے سے شفعے کا حق پیدا ہوا تھا فروخت کردے یا وقف کردے تو ان تمام صورتوں میں حق شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ہمسائے کےلیے بھی حق شفعہ ہے کیونکہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے محلے میں حضرت ابو رافع ؓ کے دومکان تھے۔
ظاہر ہے کہ حضرت سعد ؓ ان میں شریک نہ تھے کیونکہ عمر بن شبہ نے ذکر کیا ہے کہ حضرت سعد ؓ کے بلاط میں دومکان تھے ان کے درمیان دس گز کا فاصلہ تھا اور ان میں جو مسجد کے دائیں جانب تھا وہ حضرت ابو رافع کا مکان تھا جس کو حضرت سعد ؓ نے ان سے خریدا تھا۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سعد ؓ ابو رافع ؓ سے مکان خریدنے سے پہلے ان کے ہمسائے تھے، ان کے شریک نہ تھے۔
(فتح الباري: 552/4،553)
بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ حضرت ابو رافع کا ذاتی عمل ہے۔
ممکن ہے کہ انھوں نے بطور نیکی اپنا مکان پڑوسی کو دے دیا ہو۔
لیکن اس سلسلے میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ محض ہمسائیگی کے ذریعے سے حق شفعہ ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے مشترک راستہ ہونا ضروری ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ہمسایہ اپنے ہمسائے کا شفعے میں زیادہ حق دارہے۔
شفعے کی وجہ سے اس کا انتظار کیا جائے گا اگرچہ وہ غائب ہو بشرطیکہ دونوں کا راستہ ایک ہو۔
(مسند أحمد: 303/3)
صحیح بخاری کی روایت پہلے گزر چکی ہے کہ جب حد بندی ہوجائے اور راستے جداجدا ہوجائیں تو پھر شفعے کا حق نہیں رہتا۔
(3)
واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں امام شافعی سے اختلاف کیا ہے۔
ان کا موقف ہے کہ اس ہمسائے کو حق شفعہ ملتا ہے جو جائیداد میں شریک ہو دوسرے کے لیے نہیں لیکن اس حدیث سے امام بخاری ؒ کی تائید ہوتی ہے۔
(4)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام بخاری ؒ حضرت امام شافعی ؒ کے مقلد نہیں تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2258   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6977  
6977. حضرت عمرو بن شرید سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت مسور بن مخرمہ ؓ آئے اور انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، پھر میں ان کے ساتھ حضرت سعد بن مالک کے پاس گیا۔ (وہاں) ابو رافع نے حضرت مسور سے کہا: کیا تم حضرت سعد ؓ سے میری سفارش نہیں کرتے کہ وہ میرا مکان خرید لیں جو میری حویلی میں ہے؟ انہوں نے کہا: میں تو چار سو درہم سے زیادہ نہیں دوں گا اور وہ بھی قسطوں میں ادا کروں گا۔ ابو رافع نے کہا: مجھے تو اس کے پانچ سو نقد مل رہے تھے لیکن میں نے انکار کر دیا۔ اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا نہ ہوتا: ہمسایہ اپنے قرب کے باعث زیادہ حق دار ہے۔ تو میں تو تمہیں یہ مکان فروخت نہ کرتا یا تجھے نہ دیتا۔ (راوی کہتا ہے کہ) میں نے سفیان بن عینیہ سے پوچھا کہ معمر نے تو اس طرح بیان نہیں کیا۔ سفیان نے کہا: لیکن مجھے تو ابراہیم بن میسرہ نے یہ حدیث اسی طرح نقل کی ہے۔ بعض لوگ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6977]
حدیث حاشیہ:

حق شفعہ کو باطل کرنے کے لیے حیلہ سازوں کی دوسری صورت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
اس صورت میں ابطال حق شفعہ کے لیے شرط یہ ہےکہ معاوضے کو مشروط نہ کیا جائے۔
اگر ایسا کیا گیا تو شفعہ کرنے والا اس کی قیمت ادا کر کے اس جائیداد کو حاصل کر سکتا ہے اس صورت میں حق شفعہ اس لیے ساقط ہو جاتا ہےکہ ہبہ معاوضہ نہیں ہے اس لیے یہ وراثت کے مشابہ ہے اور وراثت میں حق شفعہ نہیں ہوتا۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اس امر کی وضاحت کرنا ہے کہ جو حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے لیے ثابت کیا اسے کسی قسم کے حیلے یا دوسرے طریقے سے ساقط نہیں کیا جا سکتا۔
(فتح الباري: 345/12)
چونکہ اس حیلے کے ذریعے سے حق شفعہ کو ختم کرنا مقصود ہے نیز اس میں شفعہ کرنے والے کے نقصان کا اندیشہ ہے اس لیے ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے البتہ حیلہ ساز کہتے ہیں کہ شفعہ خریدوفروخت میں ہوتا ہے ہبہ کے مال میں شفعےکی گنجائش نہیں ہوتی لیکن ان حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسی خاص فرد کو ہبہ کرنا بھی خرید وفروخت کے حکم میں ہے۔
اس اعتبار سے بھی شفعہ کرنے والے کا حق قائم رہنا چاہیے۔
اس قسم کا حیلہ کرنا ناجائز ہے کیونکہ مالک اس میں دوسرے کی حق تلفی کا ارادہ کیے ہوتا ہے۔

مذکورہ صورت درحقیقت خرید وفروخت ہی ہےصرف اس پر ہے کا لیبل لگا دیا گیا ہے ہمیں چاہیے کہ اس قسم کا ہبہ لینے اور دینے سے بچیں جس سے کسی دوسرے کو نقصان مقصود ہو۔
بہر حال ایسے ناجائز حیلے کرنا مومن کی شان کے خلاف ہیں۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6977   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6980  
6980. حضرت ابو رافع ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: پڑوسی اپنی ہمسائیگی کی وجہ سے زیادہ حق دار ہے۔ (اس کے باوجود) بعض لوگوں نے کہا ہے: اگر کسی نے بیس ہزار درہم میں مکان خریدا تو (اسقاط حق شفعہ کے لیے) کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ بیس ہزار درہم کا سودا کرے لے، پھر مکان کے مالک نو ہزار نو سو ننانوے درہم نقد دے دے اور بیس ہزار میں سے باقی (دس ہزار ایک درہم کے عوض اسے ایک دینار دے۔ اس صورت میں اگر شفعہ کرنے والا اس مکان کے سلسلے میں کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ پھر اگر مکان اور حق دار نکل آیا تو خریدار، فروخت کرنے والے سے وہی رقم واپس لے گا جو اس نے دی ہے اور نو ہزار سو ننانوے درہم اور ایک دینار ہے کیونکہ اس گھر کا جب اور کوئی حق دار نکل آیا تو بیع صرف جو دینار کے متعلق ہوئی تھی ختم ہو گئی۔ اور اگر اس گھر میں کوئی عیب ثابت ہوا اور اس کا کوئی دوسرا حق دار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6980]
حدیث حاشیہ:

حیلہ سازوں کی طرف سے حیلے کے ذریعے سے کسی کا حق شفعہ ختم کرنے کے لیے یہ چوتھی صورت ہے جس کا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی شدت سے نوٹس لیا ہے اور اسے مکرو فریب سے تعبیر کیا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حیلے کی صورت پر دو اعتراض کیے ہیں جوناقابل تردید ہیں۔
ان حضرات نے رد استحقاق اور ردعیب میں فرق روا رکھا ہے۔
حالانکہ دونوں صورتوں میں اس قیمت کا واپس کرنا ضروری ہے جو فروخت کرنے والے نے خریدار سے وصول کی ہے۔
اسی طرح شفعہ کرنے والے کے لیے بھی اس قدر قیمت سے شفعہ ہونا چاہیے جو خریدار نے نقد ادا کی ہے یعنی نو ہزار نو صد ننانوے درہم اور ایک دینار اور اصل عقد والا ثمن حیلہ یعنی بیس ہزار درہم اس کے ذمے ہر گز نہیں ہونی چاہیے۔
لیکن ان حضرات نے استحقاق اور عیب میں فرق کیا ہے کہ اگرخریدار نے کسی کے استحقاق کی وجہ سے گھر واپس کیا ہے تو فروخت کرنے والے کے ذمے صرف وہی رقم واپس کرنا لازم آتا ہے جو اس نے نقد وصول کی ہے لیکن اگر عیب کی وجہ سے بیع ختم کی ہے تو پھر بیچنے والے کے ذمے پوری کی پوری رقم واجب الادا ہوگی جو سودا کرتے وقت طے ہوئی تھی۔
اسی طرح اگر شفعہ کرنے والا اس گھر کو لینا چاہے تو وہ بھی پوری طے شدہ قیمت یعنی بیس ہزار درہم ادا کر کے اس مکان کو لے سکے گا۔
اور یہ صریح تناقص ہے۔

ان حضرات نے شفعہ کرنے والے اور فروخت کرنے والے کے درمیان دھوکا فریب اور حیلہ سازی کو جائز قرار دیا ہے کہ بیچنے والے نے حق شفعہ ختم کرنے کے لیے فروخت شدہ مکان کی قیمت میں ظاہری طور پر اضافہ کر دیا۔
پھر کچھ رقم تو نقد لے لی اور باقی میں سے ایک دینار کے بدلے عقد صرف کر لیا۔
جس کی وجہ سے شفعہ کرنے والے کو مکان کی اصل مالیت کے اعتبار سے انتہائی اضافے کی وجہ سے شفعہ ترک کرنا پڑا۔
حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلمانوں کی خریدو فروخت میں نہ تو بیماری کا عیب ہو اور نہ کوئی خباثت و شرارت کا پہلو ہو اور نہ وہاں فریب و دھوکے ہی کا اندیشہ ہو لہٰذا حق شفعہ ختم کرنے کے لیے حیلہ سازوں کی طرف سے یہ حیلہ سراسر حدیث نبوی کے خلاف ہے۔
پھر ان حضرات کا جب ہر طرف سے راستہ بند ہوا تو جواز حیلہ کا چور دروازہ کھولا یعنی ان کے نزدیک جواز حیلہ اور نفاذ حیلہ دو الگ الگ چیزیں ہیں یعنی عدم جواز حیلہ کے باوجود اگر کوئی حماقت کی بنا پر ایسا کرے تو یہ حیلہ ہو جائے گا۔
حالانکہ جو چیز ناجائز ہے وہ سرے سے نافذ ہی نہیں ہوتی۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے جسے انھوں نے شروع ہی سے اختیار کیا ہے۔

بہر حال یہ حیلہ شفعہ کرنے والے کا حق غیر مؤثر کرنے کے لیے کیا گیا ہے جو اثبات حق کے بجائے ابطال حق کے لیے ہے لہٰذا ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے۔
ہمارے رجحان کے مطابق راجح موقف یہ ہے کہ خریدار عیب یا استحقاق دونوں صورتوں میں بیچنے والے سے وہی رقم لینے کا حق دار ہوگا جو اس نے بیچنے والے کودی ہے اور وہ نو ہزار نو سو ننانوے درہم اور ایک دینار ہے اور اسی طرح شفعہ کرنے والا بھی یہی رقم دے کر اس مکان کو خریدارسے لے سکتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6980   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6981  
6981. حضرت عمرو بن شرید سے روایت ہے کہ حضرت ابو رافع ؓ نے حضرت سعد بن مالک ؓ کو ایک گھر چار سو مثقال میں فرووخت کیا اور فرمایا: اگر میں نے نبی ﷺ سے یہ بات نہ سنی ہوتی کہ پڑوسی ہمسائیگی کا زیادہ حق دار ہے۔ تو میں آپ کو یہ گھر فروخت نہ کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6981]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ہیں ان کے دو گھر حضرت سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حویلی میں تھے۔
انھوں نے فروخت کے لیے سب سے پہلے اپنے پڑوسی حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رابطہ کیا۔
انھوں نے خریدنے سے انکار کر دیا اس کے لیے حضرت منوربن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو درمیان میں لائے اور اس مکان کی قیمت انھیں پانچ سو دینار نقد ملتی تھی لیکن حق ہمسائیگی کو ترجیح دیتے ہوئے نقصان برداشت کر لیا اور چار ہزار مثقال کے عوض حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فروخت کر دیا اور وہ بھی بالاقساط ادائیگی کے ساتھ (صحیح البخاري، الشفعة، حدیث: 2258)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الشفعہ میں اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے:
(باب عَرْضِ الشُّفْعَةِ عَلَى صَاحِبِهَا قَبْلَ الْبَيْعِ)
فروخت سے پہلے شفعہ کرنے والے پر جائیداد کو پیش کرنا۔
اب حیلہ سازوں کی حیلہ گری دیکھیے کہ انھوں نے شفعہ کرنے والے کو حق شفعہ سے محروم کرنے کے لیے کئی قسم کے حیلے ایجاد کیے ہیں اس سلسلے میں ہم پہلے تفصیل بیان کر آئے ہیں۔

بہر حال حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حق ہمسائیگی کی ادائیگی میں کسی حیلے بہانے کو آڑ نہیں بنایا بلکہ پہلے انھیں ترجیح دیتے ہوئے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خریدنے کی پیشکش کی۔
صحابہ کرام اور جملہ سلف صالحین کا یہی طرز عمل تھا۔
وہ حیلوں بہانوں کی تلاش میں نہیں رہتے تھے بلکہ شرعی احکام پر عمل کرنے کو اپنی سعادت سمجھتے تھے۔

ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو آخر میں بیان کیا ہے تاہم حیلہ سازوں نے اپنی ایک الگ کائنات بسا رکھی ہے وہ کسی کی بات پر کان نہیں دھرتے بہرحال اہل حدیث حضرات اس قسم کے حیلوں سے بیزار ہیں اور ان سے اعلان براءت و نفرت کرتے ہیں کیونکہ یہ اثبات حق کے لیے نہیں بلکہ ابطال حق کے لیے کیے جاتے ہیں جس کی مثالیں پہلے گزر چکی ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6981