اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی امامت ان کا غلام ذکوان قرآن دیکھ کر کیا کرتا تھا اور ولد الزنا اور گنوار اور نابالغ لڑکے کی امامت کا بیان کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کتاب اللہ کا سب سے بہتر پڑھنے والا امامت کرائے اور غلام کو بغیر کسی خاص عذر کے جماعت میں شرکت سے نہ روکا جائے گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ/حدیث: Q692]
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري Q692
فوائد و مسائل 7 تبصرہ: 7 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا غلام (ر مضان میں) قرآن مجید دیکھ کر امامت کراتا تھا۔ [مصنف ابن ابي شيبه ۲/۳۳۸ ح ۷۲۱۵و سنده صحيح، صحيح بخاري قبل ح ۶۶۰] مشہور تابعی محمد بن سیرین رحمہ اللہ کے نزدیک قرآن مجید دیکھ کر امامت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه: ۷۲۱۴ و سنده صحيح] تابعیہ عائشہ بنت طلحہ بن عبیداللہ التیمیہ رحمہا اللہ اپنے غلام یا کسی شخص کو حکم دیتیں تو وہ انہیں مصحف (قرآن مجید) دیکھ کر نماز پڑھاتا تھا۔ [ابن ابي شيبه: ۷۲۱۷ و سنده صحيح] حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ نے قرآن دیکھ نماز پڑھانے کی اجازت دی۔ [ابن ابي شيبه: ۷۲۱۸ و سنده صحيح] حسن بصری رحمہ اللہ بھی اسے جائز سمجھتے تھے۔ [ابن ابي شيبه: ۷۲۱۹ و سنده صحيح] سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا غلام مصحف ہاتھ میں پکڑے ہوئے قرآن دیکھ کر لقمہ دیتا تھا۔ [ابن ابي شيبه: ۷۲۲۲ و سنده حسن] امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نماز پڑھتے اور ان کے قریب ہی مصحف ہوتا تھا، جب انہیں کسی (آیت) میں تردد ہوتا تو مصحف دیکھ لیا کرتے تھے۔ [مصنف عبدالرزاق ۲/۴۲۰ ح ۳۹۳۱ و سنده صحيح] امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ سے پوچھا: گیا کہ کیا قرآن مجید دیکھ کر نماز پڑھائی جا سکتی ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں، جب سے اسلام ہے، لوگ یہ کر رہے ہیں۔ [المصاحف لابن ابي داود ص ۲۲۲و سنده حسن] یحییٰ بن سعید الانصاری رحمہ اللہ نے فرمایا: ”میں ر مضان میں قرآن دیکھ کر قرأت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔“ [المصاحف ص ۲۲۲ و عنده:“ معاوية عن صالح بن يحيي بن سعيد الأنصاري“ والصواب: ”معاوية بن صالح عن يحيي بن سعيد الأنصاري ”و سنده حسن] امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مشہور استاد امام عطاء بن ابی رباح المکی التابعی رحمہ اللہ نماز میں قرآن دیکھ کر قرأت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ [المصاحف لا بن ابي داود ص ۲۲۲ و سنده حسن، رباح بن ابي معروف حسن الحديث و ثقه الجمهور و باقي السند صحيح]
7 تنبیہ: 7 بعض علماء مثلاًً حماد اور قتادہ وغیرہ ما مصحف دیکھ کر قرآن مجید پڑھنا ناپسند کرتے یا مکر وہ سمجھتے تھے۔ مثلاًً دیکھئے: [ابن ابي شيبه: ۷۲۳۰ و سنده صحيح] یہ قول اس پر محمول ہے کہ صحیح العقیدہ حافظ ہونے کے باوجود جان بوجھ کر قرآن دیکھ کر نماز میں قرأت کی جائے۔ دوسرے یہ کہ صحابہ اور کبار تابعین کے مقابلے میں ان اقوال کی کیا حیثیت ہے؟
مذید تشریحات، حدیث/صفحہ نمبر: 0
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، صحیح بخاری Q692
قرآن مجید دیکھ کر نماز پڑھانا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا غلام رمضان میں قرآن دیکھ کر انہیں نماز پڑھاتا تھا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/ 338 ح 7216 وسنده صحيح ح 7215 وسنده صحيح، صحيح بخاري تعليقاً قبل ح 692] سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نماز پڑھتے تو ان کا غلام قرآن پکڑے ہوئے لقمہ دیتا تھا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/ 338 ح 7222 وسنده حسن] امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ (تابعی) قرآن مجید دیکھ کر نماز پڑھانے کو جائز سمجھتے تھے۔ [ابن ابي شيبه: 7214 وسنده صحيح] عائشہ بنت طلحہ (بن عبید اللہ التیمیہ) رحمہا اللہ اپنے غلام یا کسی کو حکم دیتیں، وہ قرآن دیکھ کر انہیں نماز پڑھاتا تھا۔ [ابن ابي شيبه: 7217 وسنده صحيح] حسن بصری، محمد بن سیرین اور عطاء بن ابی رباح قرآن مجید دیکھ کر نماز پڑھانے کو جائز سمجھتے تھے۔ [ابن ابي شيبه: 7218۔ 7220 واسانيدالآثار المذكورة حسنة] امام محمد بن سیرین نماز پڑھاتے اور ان کے قریب ہی ایک مصحف (قرآن مجید) ہوتا تھا، جب انہیں کسی (آیت) میں تردد ہوتا تو مصحف دیکھ لیا کرتے تھے۔ [مصنف عبد الرزاق 2/ 420 ح 3931 وسنده صحيح] امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کیا قرآن مجید دیکھ کر نماز پڑھائی جا سکتی ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں! جب سے اسلام ہے، لوگ یہ کر رہے ہیں۔ [المصاحف لابن ابي داود ص 222 ح 806۔ 807 وسنده حسن، دوسرانسخه: 781۔ 782] یحییٰ بن سعید الانصاری رحمہ اللہ نے فرمایا: میں رمضان میں قرآن دیکھ کر قرأت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔ [المصاحف لابن ابي داود: 780 وسنده حسن، دوسرانسخه: 805] . . . اصل مضمون کے لئے دیکھئے . . . مقالات للشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ، جلد 6، صفحہ 28 مزید دیکھئے: ماہنامہ الحدیث حضرو: 35 ص 54۔ 55
ہم سے ابراہیم بن المنذر حزامی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا انہوں نے عبیداللہ عمری سے، انہوں نے نافع سے انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ جب پہلے مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے بھی پہلے قباء کے مقام عصبہ میں پہنچے تو ان کی امامت ابوحذیفہ کے غلام سالم رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے۔ آپ کو قرآن مجید سب سے زیادہ یاد تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ/حدیث: 692]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:692
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ حضرت سالم مولیٰ ابو حذیفہ ؓ جن اصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی امامت کراتے تھے، ان میں حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت ابو سلمہ، حضرت زید بن حارثہ اور حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہم بھی ہوتے تھے۔ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث: 7175) حضرت ابوبکر ؓ کا ان میں موجود ہونا محل نظر ہے، کیونکہ وہ تو رسول اللہ ﷺ کی رفاقت میں ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے جبکہ روایت کے حوالے سے یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے۔ اس کا امام بیہقی نے یہ جواب دیا ہے کہ حضرت سالم ؓ ہجرت کے بعد ان کی جماعت کرواتے تھے ممکن ہے کہ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ بھی ان میں موجود ہوں۔ والله أعلم۔ ترجمۃ الباب کے ساتھ اس کی مناسبت یہ ہے کہ تمام بڑے بڑے قریشی صحابۂ كرام رضی اللہ عنہم کو امامت کے لیے اپنے آپ پر مقدم کیا، اس لیے غلام کی امامت درست ہے، نیز اس سے عنوان کا دوسراحصہ بھی ثابت ہوگیا کہ غلام کو بلاوجہ امامت سے نہ روکا جائے۔ (فتح الباري: 241/2) واضح رہے کہ حضرت سالم ؓ دراصل ایک انصاری عورت کے غلام تھے، اس نے آپ کو آزاد کردیا تھا لیکن وہ آزادی سے قبل ہی لوگوں کی امامت کراتے تھے۔ آزادی کے بعد حضرت ابو حذیفہ ؓ نے انھیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔ اسی لیے آپ کو سالم مولی ابو حذیفہ کہا جاتا تھا۔ غلام کی امامت جمہور کے نزدیک درست ہے۔ صرف امام مالک سے اس موقف کی مخالفت منقول ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ غلام، آزاد لوگوں کا امام نہ بنے۔ ہاں، اگر وہ عالم اورقاری ہو اور مقتدی ایسے نہ ہوں تو ایسے حالات میں اسے امام بنایا جاسکتا ہے، لیکن جمعہ کے لیے پھر بھی امام بنانا صحیح نہیں، کیونکہ جمعہ غلام پر فرض نہیں ہے۔ علامہ اشہب مالکی ؒ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمعہ کے لیے بھی غلام کو امام بنایا جاسکتا ہے، کیونکہ جب وہ شریک جمعہ ہوگا تو اس سے فرض ہی ادا ہوگا۔ (فتح الباري: 239/2)(2) بعض حضرات نے نابالغ کی امامت کو ناجائز کہا ہے۔ وہ ایک حدیث پیش کرتے ہیں جسے مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے حافظ ابن حجر ؒ نے بیان کیا ہے کہ بچہ بالغ ہونے تک امامت نہ کرائے، لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ عمرو بن سلمہ ؓ اپنی قوم کی امامت کراتے تھے جبکہ ان کی عمر سات سال تھی۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4302) حضرت عمرو بن سلمہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے والد کو کہا کہ جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان کہے اور امامت ایسا شخص کرائے جو قرآن کا زیادہ حافظ ہو، عالم ہو۔ جب میری قوم نے دیکھا کہ میرے علاوہ کوئی دوسرا قرآن کا عالم وحافظ نہیں تو انھوں نے مجھے جماعت کے لیے آگے کردیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4302) اس واضح حدیث کے باوجود فقہاء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے ان کی تردید کرتے ہوئے بچے کی امامت کو صحیح احادیث سے ثابت کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 692