اور مطرف نے شعبی سے بیان کیا کہ دو آدمیوں نے ایک شخص کے متعلق گواہی دی کہ اس نے چوری کی ہے تو علی رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ اس کے بعد وہی دونوں ایک دوسرے شخص کو لائے اور کہا کہ ہم سے غلطی ہو گئی تھی (اصل میں چور یہ تھا) تو علی رضی اللہ عنہ نے ان کی شہادت کو باطل قرار دیا اور ان سے پہلے کا (جس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا) خون بہا لیا اور کہا کہ اگر مجھے یقین ہوتا کہ تم لوگوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تو میں تم دونوں کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: Q6896]
اور مجھ سے ابن بشار نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ ایک لڑکے اصیل نامی کو دھوکے سے قتل کر دیا گیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سارے اہل صنعاء (یمن کے لوگ) اس کے قتل میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کرا دیتا۔ اور مغیرہ بن حکیم نے اپنے والد سے بیان کیا کہ چار آدمیوں نے ایک بچے کو قتل کر دیا تھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات فرمائی تھی۔ ابوبکر، ابن زبیر، علی اور سوید بن مقرن رضی اللہ عنہما نے چانٹے کا بدلہ دلوایا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ نے درے کی جو مار ایک شخص کو ہوئی تھی اس کا بدلہ لینے کے لیے فرمایا اور علی رضی اللہ عنہ نے تین کوڑوں کا قصاص لینے کا حکم دیا اور شریح نے کوڑے اور خراش لگانے کی سزا دی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 6896]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6896
حدیث حاشیہ: یمن کے دارالحکومت صنعاء میں ایک عورت کا خاوند کہیں باہر گیا اور اپنے ایک بچے کو، جو اس آدمی کی دوسری بیوی سے تھا، موجودہ بیوی کی گود میں چھوڑ گیا تاکہ وہ اس کی نگہداشت کرے۔ اس کے باہر جانے کے بعد عورت نے اپنا ایک آشنا بنایا اور اسے کہا کہ پہلے اس بچے کو ٹھکانے لگاؤ کیونکہ یہ ہمیں کسی وقت بھی ذلیل کر سکتا ہے۔ اس آشنا نے پہلے تو انکار کیا لیکن پھر مان گیا۔ اس بچے کو قتل میں عورت کا آشنا، ایک دوسرا شخص وہ عورت اور اس کا خادم شریک ہوئے۔ اسے قتل کرنے کے بعد انہوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کیا اور پوری میں بند کر کے ایک ویران کنویں میں پھینک دیا۔ بعد ازاں اس کے آشنا کو گرفتار کر لیا گیا تو اس نے اقرار جرم کر لیا۔ باقی قاتل بھی مان گئے، حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ جو اس وقت صنعاء کے حاکم تھے انہوں نے اس مقدمے کے متعلق حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو لکھا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے، مزید فرمایا: اگر تمام اہل صںعاء اس قتل میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کرنے کا حکم دیتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6896
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6896
حدیث حاشیہ: (1) یمن کے دارالحکومت صنعاء میں ایک عورت کا خاوند کہیں باہر گیا اور اپنے ایک بچے کو، جو اس آدمی کی دوسری بیوی سے تھا، موجودہ بیوی کی گود میں چھوڑ گیا تاکہ وہ اس کی نگہداشت کرے۔ اس کے باہر جانے کے بعد عورت نے ایک آشنا بنایا اور اسے کہا کہ پہلے اس بچے کو ٹھکانے لگاؤ کیونکہ یہ ہمیں کسی وقت بھی ذلیل کر سکتا ہے۔ اس آشنا نے پہلے تو انکار کیا لیکن پھر مان گیا۔ اس بچے کے قتل میں عورت کا آشنا، ایک دوسرا شخص، وہ عورت اور اس کا خادم شریک ہوئے۔ اسے قتل کرنے کے بعد انھوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کیا اور بوری میں بند کر کے ایک ویران کنویں میں پھینک دیا۔ بعد ازاں اس کے آشنا کو گرفتار کر لیا گیا تو اس نے اقرار جرم کر لیا۔ باقی قاتل بھی مان گئے تو حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ جو اس وقت صنعاء کے حاکم تھے، انھوں نے اس مقدمۂ قتل کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لکھا تو انھوں نے جواب میں لکھا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے، مزید فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تمام اہل صنعاء اس قتل میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کرنے کا حکم دیتا۔ (فتح الباري: 283/12، 284)(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے طمانچے اور خراش لگانے کے متعلق قصاص کا ذکر بھی اس عنوان کے تحت کیا ہے، اس کی دو وجہیں بیان کی جاتی ہیں: ٭بعض حضرات کا موقف ہے کہ طمانچوں اور خراشوں میں چونکہ مماثلت نہیں ہوتی، لہٰذا اس میں قصاص نہیں بلکہ تعزیر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان حضرات کے موقف کو محل نظر قرار دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اسلام میں ان کے متعلق قصاص لیا اور دیا جاتا تھا۔ ٭ جب چھوٹے چھوٹے اور معمولی کاموں میں قصاص ہے تو اگر زیادہ آدمی ایک جرم میں شریک ہوں، خواہ کم ہوں یا زیادہ، وہ تمام جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ہر ایک کو سزا ملنی چاہیے جیسا کہ معمولی کاموں میں قصاص لیا جاتا ہے، ان سے بھی قصاص لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ کوئی اور دوسری سزا نہیں دی جائے گی۔ (فتح الباري: 285/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6896