ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے مجاہد بن جبیر نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ بنی اسرائیل میں صرف قصاص کا رواج تھا، دیت کی صورت نہیں تھی۔ پھر اس امت کے لیے یہ حکم نازل ہوا «كتب عليكم القصاص في القتلى» الخ۔ ابن عباس نے کہا «فمن عفي له من أخيه شىء» سے یہی مراد ہے کہ مقتول کے وارث قتل عمد میں دیت پر راضی ہو جائیں اور «فاتباع بالمعروف» سے یہ مراد ہے کہ مقتول کے وارث دستور کے موافق قاتل سے دیت کا تقاضا کریں «وآداء اليه باحسان» سے یہ مراد ہے کہ قاتل اچھی طرح خوش دلی سے دیت ادا کرے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 6881]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6881
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قتل عمد میں دیت قبول کرنے یا قصاص لینے کا اختیار مقتول کے ورثاء کو ہے،اس میں قاتل کی رضامندی شرط نہیں۔ یہود کے ہاں صرف قصاص تھا جبکہ نصاریٰ میں قصاص کے بجائے معافی تھی لیکن اسلام نے اس افراط وتفریط کے درمیان میانہ روی کو اختیار کیا ہے کہ مقتول کے ورثاء اگر دیت پر راضی ہوجائیں تو انھیں اختیار ہے۔ اگر قاتل قصاص دینے پر اصرار کرے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اسے بھی دیت دینے پر مجبور کیا جائے کیونکہ قاتل بھی اپنی جان کی حفاظت کا ذمے دار ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”خود کو قتل نہ کرو۔ “(النساء4: 29) اس لیے جب مقتول کے ورثاء دیت لینے پر رضامند ہوں تو قاتل کو اس سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث ابن عباس سے اس موقف کو ثابت کیا ہے۔ (فتح الباري: 255/12، 256)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6881