ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو عمرو نے خبر دی، ان سے بکیر نے بیان کیا کہ میں سلیمان بن یسار کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ عبدالرحمٰن بن جابر آئے اور سلیمان بن یسار سے بیان کیا پھر سلیمان بن یسار ہماری طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن جابر نے بیان کیا ہے کہ ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور انہوں نے ابوبردہ انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حدود اللہ میں سے کسی حد کے سوا کسی سزا میں دس کوڑے سے زیادہ کی سزا نہ دو۔ [صحيح البخاري/كتاب المحاربين/حدیث: 6850]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6850
حدیث حاشیہ: ہمارے امام احمد بن حنبل اور جملہ اہل حدیث کے نزدیک تعزیر میں دس کوڑے سے زیادہ نہیں مارنا چاہئے اورحنفیہ نے اس میں اختلاف کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کم سے کم جو حد ہے یعنی چالیس کوڑے غلام کے لیے اس سے ایک کم تک یعنی انتالیس کوڑے تک تعزیر ہو سکتی ہے۔ ہماری دلیل وہ احادیث ہیں جو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں ذکر فرمائی ہیں اور حنفیہ کو بھی اس مسئلہ میں اپنے امام کا قول ترک کرنا چاہئے اور صحیح حدیث پر عمل کرنا چاہئے۔ ان کے امام نے ایسی ہی وصیت کی ہے۔ حضرت ابوبردہ انصاری رضی اللہ عنہ عقبہ ثانیہ کی بیعت میں سترانصاریوں کے ساتھ شامل تھے۔ جنگ بدر اور بعد کی سب جنگوں میں شرکت کی، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے ماموں ہیں، بعہد حضرت معاویہ لاولد فوت ہوئے۔ نام ہانی بن نیار ہے۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6850
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6850
حدیث حاشیہ: (1) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ تعزیر کی زیادہ سے زیادہ مقدار دس کوڑے ہیں۔ کوڑا بھی اتنا سخت نہ ہو کہ پڑتے ہی جسم کا چمڑا ادھڑ جائے اور نہ اتنا نرم ہوکہ اسے سزا خیال نہ کرے۔ مارنے والے کو بھی میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔ مرد کو یہ سزا کھڑا کرکے اور عورت کو بٹھا کر دی جائے۔ مرد کا جسم ننگا ہو تو بھی ٹھیک ہے مگر عورت کا جسم ڈھانپا ہوا ہونا چاہیے، البتہ بدن پر اتنا موٹا کپڑا نہ ہو جو سزا کا اثر کم یا بالکل ہی ختم کر دے۔ (2) بعض ائمہ کرام کے نزدیک دس کوڑوں سے زیادہ بھی تعزیر لگائی جا سکتی ہے لیکن راجح بات یہ ہے کہ حدیث کے مطابق دس کوڑوں سے زیادہ تعزیر نہیں ہے۔ (3) ان احادیث سے تعزیر کا وجوب نہیں بلکہ جواز ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض معاملات کی اطلاع دی گئی جو قابل سزا تھے لیکن آپ نے انھیں کچھ نہ کہا، مثلاً: ایک شخص نے ماہ رمضان میں بحالت روزہ بیوی سے جماع کر لیا تو آپ نے کفارے کے علاوہ اسے کوئی دوسری بدنی سزا نہ دی، نیز ایک شخص نے ایک عورت سے جماع کے علاوہ سب کچھ کیا لیکن آپ نے اسے صرف توبہ واستغفار کی تلقین کی، اس کے علاوہ اسے کوئی سزا نہ دی۔ (4) تعزیر کئی طرح سے ہو سکتی ہے، مثلاً: قید کرنا، جلا وطن کرنا اور سلام وکلام چھوڑ دینا وغیرہ، ان تمام قسموں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمل میں لائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6850
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4460
حضرت ابو بردہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، ”کوئی انسان، اللہ کی حدود میں سے کسی حد کے سوا دس سے زائد کوڑے نہ مارے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4460]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تعزیر کی صورت میں دس سے زائد کوڑے نہیں لگائے جا سکتے، امام اسحاق اور لیث کا یہی خیال ہے اور امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے۔ امام ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد کے ایک قول کے مطابق، اس سے زائد کوڑے تعزیر کی صورت میں لگائے جا سکتے ہیں، لیکن زائد کی مقدار میں اختلاف ہے۔ (1) امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک، 39 سے زائد کوڑے، آزاد ہو یا غلام نہیں مارے جا سکتے، امام شافعی اور امام احمد کا ایک قول یہی ہے، امام شافعی کے نزدیک غلام کو انیس (19) سے زائد کوڑے نہیں مارے جا سکتے، ابن ابی لیلیٰ اور ابو یوسف کے نزدیک چونکہ کم از کم حد اَسی (80) کوڑے ہیں، اس لیے تعزیر سے اس سے زائد کوڑے نہیں مارے جا سکتے، المغنی، ج 12، ص 524۔ فتح الباری، ج 12، ص 220۔ اور امام کا ایک قول بقول ابن قدامہ یہ ہے، ہر جرم میں اس کی جنس کی حد کا لحاظ ہے، مثلا اگر تعزیر وطی کے جرم پر ہے تو سو کوڑوں سے کم ہو گی تاکہ حد زنا سے کم رہے، اگر زنا کے سوا الزام تراشی ہو تو تعزیر اَسی (80) سے کم کوڑے ہو گی اور امام مالک کے نزدیک تعزیر کا اختیار امام کو ہے یا اس کے مقرر کردہ قاضی کو، اس لیے وہ جرم کی شدت و ضعف کے اعتبار سے جتنی چاہے سزا دے سکتا ہے، حد سے بھی زیادہ تعزیر جاری کر سکتا ہے، ابو ثور اور ابو یوسف کا ایک قول بھی یہی ہے اور ان ائمہ نے جن آثار صحابہ رضی اللہ عنہم سے استدلال کیا ہے، ان میں در حقیقت کسی ایسے کام کا ارتکاب کیا گیا ہے، جس پر حد لگتی ہے، لیکن وہ بینہ یا اقرار سے ثابت نہیں ہو سکا یا مرتکب ناواقف اور جاہل تھا، لیکن قرائن اور آثار سے وہ بات ثابت ہو جاتی تھی، جو بعض وجوہ کی بناء پر ثابت نہیں ہو سکی اور حافظ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کے نزدیک، اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اللہ کی معصیت اور نافرمانی پر تو دس کوڑے لگائے جا سکتے ہیں، لیکن شخصی اور انسانی قوانین کے توڑنے پر، دس سے زائد کوڑے نہیں لگائے جا سکتے، مثلا کوئی انسان، باپ یا استاد کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ تادیب و سرزنش کے لیے، دس سے زائد کوڑے نہیں لگا سکتا یا بقول حافظ ابن حجر، چھوٹے گناہ پر دس سے زائد کوڑے نہیں لگائے جا سکتے اور بڑے گناہ پر اسے دس سے زائد کوڑے لگائے جا سکتے ہیں۔ (فتح الباری، ج 12، ص 220) کیونکہ، حد کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور معصیت پر بھی ہوتا ہے، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا۔ ۔ ﴾(سورة البقرة: 229) ”یہ اللہ کی حدود ہیں، ان کو نہ توڑو۔ "یعنی اللہ کا حکم ہے، اس کی نافرمانی نہ کرو۔ “