پھر میں نے اس کا تذکرہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کیا تو انہوں نے کہا کہ اس حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے دونوں کانوں نے بھی سنا ہے اور میرے دل نے اس کو محفوظ رکھا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 6767]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6767
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث کا پس منظر اس طرح ہے کہ زیاد جو حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے عبید کے فراش پر پیدا ہوا تھا، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیاسی وجوہات کی بنا پر نسب کے طور پر اسے اپنے ساتھ ملایا اور اپنا بھائی قرار دے دیا تھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ زیاد کے مادری بھائی تھے۔ ابو عثمان نہدی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کے متعلق کہا تو انھوں نے حدیث بیان کی۔ اس وقت کئی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے اس اقدام پر اعتراض کیا تھا۔ (فتح الباري: 66/12)(2) اہل علم نے حدیث میں ذکر کردہ وعید کو تہدید پر محمول کیا ہے۔ ہاں جو اسے جائز اور حلال کہتا ہے اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں اور کافروں پر جنت حرام ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ جس نے اپنے باپ سے اعراض کیا اس نے کفر کیا۔ اس سے مراد کفران نعمت ہے، یعنی اس نے أبوَّت جیسی عظیم نعمت کا انکار کیا ہے۔ (عمدة القاري: 48/16)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6767