14. باب: سورۃ نساء میں اللہ کا یہ فرمان کہ لوگ وراثت کے بارے میں آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے متعلق یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کے کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی بہنیں ہوں تو بہن کو ترکہ کا آدھا ملے گا۔ اسی طرح یہ شخص اپنی بہن کا وارث ہو گا اگر اس کا کوئی بیٹا نہ ہو۔ پھر اگر بہنیں دو ہوں تو وہ دو تہائی ترکہ سے پائیں گی اور اگر بھائی بہن سب ملے جلے ہوں تو مرد کو دہرا حصہ اور عورت کو اکہرا حصہ ملے گا۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے بیان کرتا ہے کہ کہیں تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے“۔
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے، ان سے براء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آخری آیت (میراث کی) سورۃ نساء کے آخر کی آیتیں نازل ہوئیں «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة» کہ ”آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں، کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 6744]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6744
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ آیت بطور عنوان اس لیے پیش کی ہے کہ اس میں بہن بھائیوں کی وراثت کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ (2) کلالہ وہ میت ہے جس کے والدین اور اولاد نہ ہو۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایسی میت کے ورثاء کو کلالہ کہا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک وہ مال کلالہ ہے جس کا وارث باپ اور بیٹے کے علاوہ کوئی دوسرا شخص ہو۔ (فتح الباري: 33/12) اس امر میں اختلاف ہے کہ بہن، بیٹی کی موجودگی میں وارث بنتی ہے یا نہیں؟ اس کی تفصیل پہلے بیان ہو چکی ہے۔ کلالہ کے متعلق احکام سورۂ نساء آیت: 12 میں پہلے بھی بیان ہو چکے ہیں، وہاں جو کلالہ کی میراث کے احکام بیان ہوئے تھے وہ مادری بہن بھائیوں سے تعلق رکھتے تھے اور اس آیت میں جو احکام بیان ہوئے ہیں وہ حقیقی یا پدری بہن بھائیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ (3) کلالہ کی وراثت تقسیم کرتے وقت دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے: ایک یہ کہ اگر کلالہ کے حقیقی بہن بھائی بھی موجود ہوں اور سوتيلے بھی تو حقیقی بہن بھائیوں کی موجودگی میں پدری بھائی محروم رہیں گے اور اگر حقیقی نہ ہوں تو پھر پدری بین بھائیوں میں وراثت تقسیم ہوگی۔ دوسری بات یہ ہے کہ کلالہ کے ترکے کے متعلق احکام وہی ہیں جو اولاد کی صورت میں ہوتے ہیں، یعنی اگر ایک بہن ہے تو اس کو نصف، دو یا دو سے زیادہ بہنیں ہوں تو انھیں 2/3، اگر صرف ایک بھائی ہو تو تمام ترکے کا واحد وارث ہوگا اور اگر بہن بھائی ملے جلے ہوں تو ان میں سے ہر بھائی کو دو حصے اور ہر بہن کو ایک حصہ ملے گا۔ (4) کلالہ کی مزید دو صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭میت عورت ہو اور اس کا خاوند بھی موجود نہ ہو یا میت مرد ہو اور اس کی بیوی بھی موجود نہ ہو۔ ٭میت عورت ہو اور اس کا خاوند موجود ہو یا میت مرد ہو اور اس کی بیوی بھی موجود ہو۔ دوسری صورت میں زوجین بھی وراثت میں مقررہ حصہ لیتے ہیں، مثلاً: کلالہ عورت ہے جس کا خاوند موجود ہے اور اس کی بہن بھی زندہ ہے تو آدھا حصہ خاوند کو اور آدھا بہن کو ملے گا اب سوال ہے کہ پہلی صورت میں اگر کلالہ عورت کا خاوند بھی نہ ہو یا کلالہ مرد کی بیوی بھی نہ ہو اور اس کی صرف ایک بہن ہوتو آدھا اس بہن کو مل جائے گا باقی آدھے کا وارث کون ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ باقی آدھا رد (اصحاب الفرائض کے حصوں کے بعد اصل مسئلہ سے باقی ماندہ انھی پر لوٹا دینے کو "رد" کہتے ہیں) کے طور پر بہن کو بھی دیا جا سکتا ہے اور دور کے رشتے داروں، مثلاً: ماموں، پھوپھی کو بھی مل سکتا ہے، اور اگر وہ بھی نہ ہوں تو بقایا آدھا ترکہ بیت المال میں بھی جمع کرایا جا سکتا ہے، اور ایسے حالات شاذونادر ہی پیش آتے ہیں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6744