ہم سے منذر بن الولید الجارودی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوقتیبہ، سلم شعیری نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما رمضان کا فطرانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پہلے مد کے وزن سے دیتے تھے اور قسم کا کفارہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے ہی دیتے تھے۔ ابوقتیبہ نے اسی سند سے بیان کیا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا کہ ہمارا مد تمہارے مد سے بڑا ہے اور ہمارے نزدیک ترجیح صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے مد کو ہے۔ اور مجھ سے امام مالک نے بیان کیا کہ اگر ایسا کوئی حاکم آیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے چھوٹا مد مقرر کر دے تو تم کس حساب سے (صدقہ فطر وغیرہ) نکا لو گے؟ میں نے عرض کیا کہ ایسی صورت میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے مد کے حساب سے فطرہ نکالا کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ معاملہ ہمیشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے مد کی طرف لوٹتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب كَفَّارَاتِ الْأَيْمَانِ/حدیث: 6713]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6713
حدیث حاشیہ: اسی لیے کوفی مد اور صاع ناقابل اعتبار ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6713
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6713
حدیث حاشیہ: (1) ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مد کی مقدار 11/3 رطل تھی، اس طرح صاع نبوی کی مقدار 51/3 رطل ہوئی۔ لیکن بنو امیہ کے دور میں ہشام نے ایک دوسرا مد رائج کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے دو تہائی بڑا تھا، البتہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس مد کی طرف کوئی توجہ نہ دی بلکہ پہلے مد ہی کو استعمال کرتے رہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ہشام کا رائج کردہ مد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے دو تہائی رطل زیادہ تھا اور اس کی مقدار دو رطل تھی اور اس اعتبار سے صاع آٹھ رطل کے برابر تھا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد کی مقدار 11/3 رطل اور صاع 51/3 رطل کا تھا۔ (فتح الباري: 729/11)(2) عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاع کو صاع حجازی اور بنو امیہ کے صاع کو صاع بغدادی یا صاع عراقی کہا جاتا ہے اور صاع عراقی، صاع حجازی سے ایک تہائی بڑا ہے۔ احناف نے بنو امیہ کے ایجاد کردہ مد اور صاع کو معیاری قرار دیا جبکہ محدثین نے صاع حجازی کا اعتبار کیا۔ اس سلسلے میں درج ذیل واقعہ سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، حسین بن ولید قرشی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمارے پاس حج سے فراغت کے بعد امام ابو یوسف رحمہ اللہ تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے لیے ایک اہم علم کا دروازہ کھولنا چاہتا ہوں جس کے متعلق میں نے خوب تحقیق کی ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ میں نے مدینہ طیبہ جا کر لوگوں سے صاع کے متعلق دریافت کیا تو کہنے لگے: ہمارا صاع وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صاع تھا۔ میں نے اس دعویٰ کی دلیل مانگی تو کہنے لگے: ہم کل اس کی دلیل پیش کریں گے۔ جب اگلا دن ہوا تو میرے پاس انصار و مہاجرین کی اولاد میں سے پچاس کے قریب بزرگ آئے اور ہر ایک کی چادر کے نیچے بغل میں صاع تھا۔ ہر ایک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس صاع کی سند بیان کی۔ میں نے دیکھا تو وہ سب برابر تھے۔ جب میں نے ان کا وزن کیا تو ہر ایک صاع کا وزن 51/3 رطل تھا۔ اس کے بعد میں نے صاع کے مسئلے میں اہل مدینہ کے قول کو صحیح اور قوی سمجھ کر اختیار کر لیا اور اپنے استاد ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول چھوڑ دیا۔ (السنن الکبریٰ للبیهقي: 171/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6713