22. باب: جب کسی نے قسم کھائی کہ سالن نہیں کھائے گا پھر اس نے روٹی کھجور کے ساتھ کھائی یا کسی اور سالن کے طور پر استعمال ہو سکنے والی چیز کھائی (تو اس کو سالن ہی مانا جائے گا)۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے (اپنی بیوی) ام سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں سن کر آ رہا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز (فاقوں کی وجہ سے) کمزور پڑ گئی ہے اور میں نے آواز سے آپ کے فاقہ کا اندازہ لگایا ہے۔ کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ چنانچہ انہوں نے جَو کی چند روٹیاں نکالیں اور ایک اوڑھنی لے کر روٹی کو اس کے ایک کونے سے لپیٹ دیا اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا۔ میں لے کر گیا تو میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف رکھتے ہیں اور آپ کے ساتھ کچھ لوگ ہیں، میں ان کے پاس جا کے کھڑا ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیا تمہیں ابوطلحہ نے بھیجا ہے، میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے کہا جو ساتھ تھے کہ اٹھو اور چلو، میں ان کے آگے آگے چل رہا تھا۔ آخر میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے یہاں پہنچا اور ان کو اطلاع دی۔ ابوطلحہ نے کہا: ام سلیم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اور ہمارے پاس تو کوئی ایسا کھانا نہیں ہے جو سب کو پیش کیا جا سکے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ باہر نکلے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے، اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوطلحہ گھر کی طرف بڑھے اور اندر گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے میرے پاس لاؤ۔ وہ یہی روٹیاں لائیں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان روٹیوں کو چورا کر دیا گیا اور ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنی ایک (گھی کی) کپی کو نچوڑا گیا یہی سالن تھا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا کہ اللہ نے چاہا دعا پڑھی اور فرمایا کہ دس دس آدمیوں کو اندر بلاؤ انہیں بلایا گیا اور اس طرح سب لوگوں نے کھایا اور خوب سیر ہو گئے، حاضرین کی تعداد ستر یا اسی آدمیوں کی تھی۔ [صحيح البخاري/كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ/حدیث: 6688]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6688
حدیث حاشیہ: گھی کو بطور سالن استعمال کیا گیا ہے یہی باب اور حدیث میں مطابقت ہے جس میں ایک معجزہ نبوی کا بیان ہے۔ یہ بھی ملعوم ہوا کہ بڑے لوگوں کو خود کھانے سے پہلے اپنے دیگر متعلقین کا بھی فکر کرنا ضروری ہے بلکہ ا ن سب کو پہلے کھلانا اور بعد میں خود کھانا تاکہ کوئی بھی بھوکا نہ رہ جائے۔ اللہ پاک آج کل کے نام نہاد پیروں مرشدوں کو نیز علماء کو سب کوان اخلاق حسنہ کی توثیق بخشے (آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6688
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6688
حدیث حاشیہ: (1) اہل کوفہ کے نزدیک سالن کی تعریف یہ ہے کہ جس میں روٹی کو ملا کر کھایا جائے اور روٹی کے اجزاء اس کے اجزاء میں شامل ہو جائیں۔ ان کے ہاں بھونا ہوا گوشت اور انڈے سالن نہیں ہے لیکن یہ تعریف جملہ اہل لغت کے خلاف ہے۔ ابن قصار کہتے ہیں کہ اگر روٹی بھونے ہوئے گوشت کے ساتھ کھائی جائے تو اسے ادام، یعنی سالن ہی کہا جائے گا۔ اگر کوئی انسان اس طرح روٹی کھانے کے بعد کہے کہ میں نے سالن کے بغیر روٹی کھائی ہے تو اس نے جھوٹ کہا ہے اور اگر کہے کہ میں نے سالن کے ساتھ روٹی تناول کی ہے تو یہ صحیح ہے۔ (فتح الباري: 696/11)(2) حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا تعلق خالص عرب سے ہے۔ وہ روٹی پر اپنے کپے میں بچا ہوا گھی ڈال کر اسے ادام (سالن) سے تعبیر کرتی ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی مقصد کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے۔ اتنے گھی سے روٹی تو نہیں کھائی جا سکتی، البتہ روٹی کے ٹکڑوں میں گھی کی خوشبو ضرور آ سکتی ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6688