ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے برید بن عبداللہ سے بیان کیا، انہوں نے ابوبردہ سے، انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر وہ شخص ہوتا ہے، جو (مسجد میں نماز کے لیے) زیادہ سے زیادہ دور سے آئے اور جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے اور پھر امام کے ساتھ پڑھتا ہے اس شخص سے اجر میں بڑھ کر ہے جو (پہلے ہی) پڑھ کر سو جائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ/حدیث: 651]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 651
حدیث حاشیہ: پہلی حدیث میں نماز فجر کی خاص فضیلت کا ذکر ہے کہ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اورقراءت قرآن مجید سنتے ہیں۔ دوسری دو حدیثوں میں مطلق جماعت کی فضیلت کا ذکر ہے۔ جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ فجر کی نماز باجماعت ادا کی جائے تاکہ ستائیس حصہ زیادہ ثواب حاصل کرنے کے علاوہ فرشتوں کی بھی معیت نصیب ہو جو فجر میں تلاوت قرآن سننے کے لیے جماعت میں حاضر ہوتے ہیں، پھرعرش پر جاکر اللہ پاک کے سامنے ان نیک بندوں کا ذکر خیر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شامل فرمادے۔ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 651
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 651
فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: باب اور حدیث میں مناسبت یہ ہے کہ حدیث میں الفاظ ہیں «فابعدهم ممشي» یعنی وہ شخص جو دور سے چل کر آئے مسجد کو یعنی مشقت برداشت کرے گویا باب میں فجر کا لفظ موجود ہے اگر غور کیا جائے تو نمازوں میں سب سے زیادہ مشقت فجر کی ہی نماز میں ہے گویا کہ جو شخص مشقت اٹھا کر مسجد پہنچے اس کا بہت زیادہ اجر ہے اور فجر میں مشقت موجود ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «دل على ان السبب فى زيادة الاجر وجود المشقة بالمشي الي الصلاة، و اذا كان كذالك فالمشي الي الصلاة الفجر فى جماعة اشق من غيرها .»[فتح الباري ج2، ص176] ”اجر کی زیادتی کی جو وجہ ہے وہ مشقت کے ساتھ نماز کی طرف چلنے کو ہے اور یہ اسی طرح سے ہے تو پھر نماز فجر کے لئے چلنا باقی نمازوں سے زیادہ مشقت والا کام ہے۔“
◈ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «و لا شك ان المشي الى الصلاة الفجر اشق منه الى بقية الصلاة .»[المتواري، ص98] ”اس میں شک نہیں ہے کہ نماز کی طرف پیدل چلنا فجر کے لئے بقیہ نمازوں سے زیادہ مشقت والا کام ہے۔“
◈ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «مطابقة الترجمة تفهم من قوله اعظم الناس اجرا فى الصلاة ابعدهم . . . . . .»[عمدة القاري ج5، ص252] ترجمۃ الباب اور حدیث میں مطابقت یوں ہے کہ حدیث میں ہے ”یعنی وہ شخص جو دور سے چل کر آئے اور مشقت برداشت کرے۔“ اس میں بیان ہے بہت بڑے اجر کا نماز میں اور وہ ہے دور سے چل کر (مسجد کی طرف آنا) اور اسی میں مسافت اور مشقت موجود ہے۔ پس ہر وہ نماز جس میں دور سے آنے کی مشقت ہو وہ اجر اور فضیلت کے اعتبار سے بڑی ہے برعکس ان نمازوں سے جس میں (مشقت اور دور سے نہ آنے کی محنت نہ ہو) اور یہ خصوصیات نہ پائی جائیں۔
◈ بدر الدین بن جماعۃ رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے رقمطراز ہیں: «ان صلاة الجماعة وبعد المشي انما كثر ثمرها المشقة الحاصل بالتقيد بالجماعة والمشي اليها والمشي الى الجماعة فى الفجر اشق من غيرها . . . . . . فيكون الأجر اكثر»[مناسبات تراجم البخاري، ص49] ”یقیناًً جماعت کے ساتھ نماز میں (شامل ہونا) اور دور سے چل کر آنا اس کے ثمرات کو حاصل کرنا جو کہ مقید ہے جماعت کے لیے پیدل چل کر نماز کی طرف جانا اور نماز فجر کے لیے چل کر جانا سب سے زیادہ اس (نماز) میں مشقت ہے۔۔۔ پھر اجر کے اعتبار سے بھی (تمام نمازوں سے) زیادہ ہے۔“
◈ ابویحییٰ زکریا الشافعی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ”ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یہ ہے کہ زیادہ اجر کا سبب ہے دور سے نماز کی طرف چل کر آنا اور مشقت کے ساتھ اور (خصوصاً) نماز فجر میں نیند سے دور ہونا جو طبیعت پر بھاری ہوتا ہے۔“[منحة الباري بشرح صحيح البخاري ج2، ص366] لہٰذا باب اور حدیث میں مناسبت یہی ہے کہ نماز کی طرف پیدل چل کر جانا مشقت کا برداشت کرنا اجر کا مستحق ہے اور یہ تمام چیزیں نیند کا غلبہ، اندھیرے میں چلنا وغیرہ فجر کی نماز میں زیادہ ہیں۔ (لہٰذا اس اعتبار سے یہ اجر میں بھی زیادہ ہے)
◈ مولانا ابوالقاسم بنارسی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ”امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب میں تین احادیث بیان فرمائی ہیں اور ہم نے اوپر مطابقت کی جو تین قسمیں بیان کی ہیں ان میں سے ایک قسم کی مصداق ہر فرد حدیث ہے۔ پہلی حدیث جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے [صحيح بخاري برقم 621] اس سے باب کی مطابقت بطریق خصوص کے ہے۔ کیونکہ فجر کا لفظ اس میں موجود ہے۔ یہ اجتہاد کا ادنیٰ درجہ ہے۔۔۔ تیسری حدیث ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ والی ہے جس پر آپ کا اعتراض ہے (حالانکہ اسی حدیث سے اجتہاد کا درجہ کمال ثابت ہوتا ہے) اس کی مطابقت باب سے بطریق استنباط یوں ہے یہ وہی ہے (جس کو آپ نے نہیں سمجھا اور نہ آپ اسے سمجھ سکتے ہیں) غور سے سنیے وہ یوں ہے کہ لفظ حدیث «فابعدهم ممشي» سے اجر کی زیادتی وجود مشقت بالمشی الی الصلاة پر ہے کہ نماز فجر میں بنسبت اور نمازوں کے اشد مشقت و سخت دشواری بیداری از نوم و مشی الی المسجد برائے نماز جماعت کی ہوتی ہے۔ جیسا کہ ایک ایشیا کے بڑے تجربے کار نے فرمایا ہے: ”خواب نویش با مراد رحیل . . . باز دارد پیادہ راز سبیل صبح کی ميٹهي نیند . . . مسافر کو سفر سے روکتی ہے پس حدیث کے مفہوم اور باب کے مصداق میں کھلی مطابقت ہے اور یہ تطابق استنباطی ہے اور اجتہاد کا درجہ اعلٰی ہے۔ [الخذي العظيم۔ ص7]
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 651
فائدہ:
اس حدیث کی باب سے مناسبت اس طرح نکلتی ہے کہ جب دور سے آنے والے کو زیادہ ثواب ہوا اس وجہ سے کہ اسے مشقت زیادہ ہوتی ہے تو صبح کی جماعت کا بھی زیادہ ثواب ہو گا، کیونکہ صبح سویرے جماعت میں حاضر ہونا نفس پر بہت شاق ہوتا ہے۔ [تيسير الباري]
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 651
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:651
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں اگرچہ نماز فجر کا ذکر نہیں ہے، تاہم عنوان سے مطابقت بایں طور ہے کہ نماز کےلیے جانے میں زیادہ مشقت اٹھانا اجر کے زیادہ ہونے کا سبب ہے اور نماز فجر میں جانے کے لیے مشقت زیادہ اٹھانی پڑتی ہے، کیونکہ سوکر بیدار ہونے میں سستی زیادہ اور مشقت کا احساس نمایاں ہوتا ہے، اس لیے کہ نیند جیسی محبوب چیز کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ عشاء کی نماز میں اگرچہ ایسا نہیں ہوتا، تا ہم رات کے اندھیرے میں چل کرجانا اس کے لیے بھی وجہ فضیلت بن جاتا ہے۔ (فتح الباري: 180/2)(2) امام بخاری ؓ فطانت و ذہانت اور ذکاوت و فقاہت کے جس مقام پر فائز ہیں، معترضین حضرات ان کی گرد پا کو بھی نہیں پہنچ سکتے، چنانچہ اس مقام پر بعض بزعم خویش ”فقیہ الامت“ حضرات نے اعتراض کیا ہے کہ حدیث ابو درداء ؓ اور حدیث ابو موسیٰ اشعری ؓ کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں، حالانکہ امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں مسائل و احکام کو ثابت کرنے کے لیے جو طریق ِ کار وضع کیا ہے۔ اس کے پیش نظر آپ بعض اوقات بطریق خصوص، یعنی صریح نص سے خاص مسئلہ ثابت کرتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث ابو ہریرہ ؓ سے عنوان مذکور ثابت کیا ہے۔ اور کبھی کبھی بطریق عموم، یعنی عام دلیل سے خاص مسائل اخذ کرتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث ابو درداء ؓ سے عنوان بالا کا اثبات کیا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے الزین بن المنیر کے حوالے سے لکھا ہے۔ بسا اوقات استنباط و استخراج کا طریقہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث ابو موسیٰ اشعری ؓ سے واضح ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی تفصیل ذکر کی ہے۔ (فتح الباري: 180/2) اس لیے امام بخاری ؒ پر اعتراض کرنے کے بجائے اپنی فہم کے قصور کا علاج کرنا چاہیے۔ (3) بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے تحت ذکر کردہ ایک حدیث میں کسی نئی بات کا ذکر ہوتا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ فائدۂ جدیدہ کے طور پر اس حدیث پر ایک نیا عنوان قائم کردیتے ہیں جسے ہم اپنی اصطلاح میں (باب في الباب) سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ حدیث مذکور کا ہر دو عنوان سے تعلق ہو، چنانچہ اس مقام پر اصل عنوان ”نماز باجماعت کی فضیلت“ بیان کرنا ہے جو حدیث ابو ہریرہ ؓ سے واضح طور پر ثابت ہوتی ہے اور اجتماع ملائکہ سے باجماعت نماز فجر کی فضیلت ثابت ہوتی تھی، اس لیے یہاں ایک نیا عنوان ”باجماعت نماز فجر کی فضیلت“ قائم کردیا۔ اس کے بعد آنے والی روایات، یعنی حدیث ابو درداء اور حدیث ابو موسیٰ اشعری باب سابق، یعنی نماز باجماعت کی فضیلت سے متعلق ہیں۔ والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 651