مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5766
5766. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا اس کا یہ اثر ہوا کہ آپ اپنے خیال کے مطابق ایک کام کر چکے ہوتے لیکن وہ نہیں کیا ہوتا تھا آخر کار ایک دن آپ میرے پاس تشریف فر تھے تو آپ نے اللہ تعالٰی سے دعا کی پھر دعا مانگی، اس کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے اللہ تعالٰی سے جو بات پوچھی تھئ اس کا جواب اللہ تعالٰی سے جو بات پوچھی تھی اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے مجھے دے دیا ہے؟ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا پھر ایک نے دوسرے ساتھی سے کہا: اس صاحب کو کیا تکلیف ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ دسرے نے جواب دیا: لبید بن اعصم یہودی نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5766]
حدیث حاشیہ:
ابن سعد کی روایت میں یوں ہے کہ آپ نے علی رضی اللہ عنہ اور عمار رضی اللہ عنہ کواس کنویں پر بھیجا کہ جا کر یہ جادو کا سامان اٹھا لائیں۔
ایک روایت میں ہے حضرت جبیر بن یاس زرقی کو بھیجا انہوں نے یہ چیزیں کنویں سے نکالیں ممکن ہے کہ پہلے آپ نے ان لوگوں کو بھیجا ہو اور بعد میں آپ خود بھی تشریف لے گئے ہوں جیسا کہ یہاں مذکور ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو چند روز اس جادو کا اثر رہا اس میں یہ حکمت الٰہی تھی کہ آپ کا جادو گر نہ ہونا سب پر کھل جائے کیونکہ جادو گر کا اثر جادو گر پر نہیں ہوتا۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5766
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3268
3268. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ پر جادوکیا گیا تو آپ کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ آپ نے کوئی کام کیا ہے، حالانکہ وہ نہ کیا ہوتا تھا۔ پھر آپ نے ایک دن دعا فرمائی، پھر دعافرمائی (خوب دعا فرمائی)۔ اس کے بعد آپ نے (مجھ سے)فرمایا: ”(عائشہ!) کیا تمھیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آج مجھے ایسی چیز بتائی ہے جس میں میری شفا ہے۔ میرے پاس دو آدمی آئے۔ ان میں سے ایک میرےسر کے پاس اور دوسرا میرےپاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ ایک نے دوسرے سے کہا: انھیں کیا تکلیف ہے؟ اس نے کہا: یہ سحر زدہ ہیں۔ اس نے کہا: ان پر کس نے جادو کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: لبید بن اعصم (یہودی) نے۔ اس نے کہا: کس چیز میں جادو کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: کنگھی بالوں اور نرکھجورکے خوشئہ پوست میں۔ اس نے کہا: یہ کہاں رکھا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: ذروان نامی کنویں میں۔“ اس کے بعد نبی ﷺ کنویں کے پاس تشریف لے گئے اور واپس آکر حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3268]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ اس جادو کے اثر سے آپ کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عورتوں سے صحبت کررہے ہیں۔
حالانکہ نہیں۔
غرض اس سحر کا اثر آپ ﷺ کے بعض خیالات پر ہوا۔
باقی وحی اور تبلیغ رسالت میں اس کا کوئی اثر نہ ہوسکا۔
اتنا سا جو اثر ہوا اس میں بھی اللہ پاک کی کچھ مصلحت تھی۔
مدینہ میں بنی زریق کے باغ میں ایک کنواں تھا۔
اس کا نام بئر ذروان تھا۔
اگر آپ اس جادو کو نکلوالتے تو سب میں یہ خبر اڑجاتی تو مسلمان لوگ اس یہودی مردود کو مارڈالتے، معلوم نہیں کیا کیا فسادات کھڑے ہوجاتے۔
دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اس کو نکلوا کر دیکھا لیکن اس کے کھلوانے کا منتر نہیں کرایا۔
ایک روایت میں ہے کہ اس یہودی نے آنحضرت ﷺ کی مورت موم سے بناکر اس میں سوئیاں گاڑ دی تھیں اور تانت میں گیارہ گرہیں دی تھیں۔
اللہ نے معوذتین کی سورتیں اتاریں، آپ ان کی ایک ایک آیت پڑھتے جاتے تو ایک ایک گرہ کھلتی جاتی۔
اسی طرح جب اس مورت میں سے سوئی نکالتے تو اس کو تکلیف ہوتی، اس کے بعد آرام ہوجاتا۔
(وحیدی)
ہردو روایات میں تطبیق یہ ہے کہ اس وقت آپ نے اسے نہیں نکلوایا، بعد میں کسی دوسرے وقت اسے نکلوایا اور اس کی اس تفصیل کو ملاحظہ فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3268
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5763
5763. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ بنو زریق کے ایک یہودی شخص لبید بن اعصم نے رسول اللہ ﷺ پر جادو کر دیا، جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو کسی چیز کے متعلق خیال ہوتا کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے حالانکہ وہ نہ کیا ہوتا تھا حتیٰ کہ ایک دن یا رات آپ ﷺ میرے پاس تھے اور آپ نے بار بار دعا کی پھر فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ جو کچھ میں نے اللہ تعالٰی سے پوچھا تھا: اللہ تعالٰی نے مجھے اس کا جواب دے دیا ہے؟ میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ ایک نے اپنے دوسرے ساتھی پوچھا: اس صاحب کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ اس نے کہا: لبید بن اعصم نے۔ اس نے پوچھا: کس چیز میں (جادو کیا ہے)؟ دوسرے نے بتایا کنگھی اور اس سے جھڑنے والے بالوں میں، یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5763]
حدیث حاشیہ:
قال النووي خشي من إخراجه و إشاعته ضررا علی المسلمین من تذکر السحر ونحو ذالك وھو من باب ترك المصلحة خوف المنسرة (فتح)
نووی نے کہا کہ آپ نے اس جادو کے نکالنے اور اس کا ذکر پھیلانے سے احتراز فرمایا تاکہ جادو کے سکھانے اور اس کے ذکر کرنے سے مسلمانوں کو نقصان نہ ہو۔
اسی خوف فساد کی بنا پر مصلحت کے تحت آپ نے اسی وقت اس کا خیال چھوڑ دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5763
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6063
6063. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا نبی ﷺ اتنے اتنے دن اس حال میں رہے آپ کو خیال ہوتا کہ اپنی بیوی کے پاس گئے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہوتا تھا حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ آپ ﷺ نے ایک دن مجھ سے فرمایا: عائشہ! میں نے اللہ تعالٰی سے ایک معماملے میں سوال کیا تھا تو اس نے مجھے حقیقت حال سے آگاہ کر دیا ہے: میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے پاؤں کے پاس اور دوسرا میرے سر کے قریب بیٹھ گیا۔ جو میرے پاؤں کے پاس تھا اس نے سر کے قریب بیٹھنے والے سے کہا کہ اس آدمی کا حال کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ اس پر جادو کر دیا گیا ہے۔ اس نے پوچھا: کس نے کیا ہے؟ اس نے کہا: ”لبید بن اعصم نے کیا ہے۔ پوچھا: کس چیز میں کیا ہے؟ بتایا کہ کنگھی کے بالوں کو نر کھجور کے چھلکے میں ڈال کر ذروان نامی کنویں میں ایک پتھر کے نیچے رکھ کر جادو کیا ہے۔“ نبی ﷺ وہاں تشریف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6063]
حدیث حاشیہ:
(اصل میں کتان السی کو کہتے ہیں اس کے درخت کا پوست لے کر اس میں ریشم کی طرح کا تار نکالتے ہیں یہاں وہی تار مراد ہیں)
باب کے آخری جملہ کا مقصد اسی سے نکلتا ہے کہ آپ نے ایک کافر کے اوپر حقیقت کے باوجود برائی کو نہیں لادا بلکہ صبر وشکر سے کام لیا اور اس برائی کو دبا دیا۔
شورش کو بند کردیا۔
(صلی اللہ علیہ وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6063
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3175
3175. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ پر جادو کہا گیا یہاں تک آپ کو خیال گزرتا کہ میں نے فلاں کام کرلیا ہے، حالانکہ آپ نے وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3175]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں اگرچہ جادوگر کے متعلق کوئی حکم بیان نہیں ہوا، تاہم یہ حدیث سابق کا نتیجہ اور تکملہ ہے۔
گزشتہ حدیث میں اس کی پوری پوری وضاحت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3175
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3268
3268. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ پر جادوکیا گیا تو آپ کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ آپ نے کوئی کام کیا ہے، حالانکہ وہ نہ کیا ہوتا تھا۔ پھر آپ نے ایک دن دعا فرمائی، پھر دعافرمائی (خوب دعا فرمائی)۔ اس کے بعد آپ نے (مجھ سے)فرمایا: ”(عائشہ!) کیا تمھیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آج مجھے ایسی چیز بتائی ہے جس میں میری شفا ہے۔ میرے پاس دو آدمی آئے۔ ان میں سے ایک میرےسر کے پاس اور دوسرا میرےپاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ ایک نے دوسرے سے کہا: انھیں کیا تکلیف ہے؟ اس نے کہا: یہ سحر زدہ ہیں۔ اس نے کہا: ان پر کس نے جادو کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: لبید بن اعصم (یہودی) نے۔ اس نے کہا: کس چیز میں جادو کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: کنگھی بالوں اور نرکھجورکے خوشئہ پوست میں۔ اس نے کہا: یہ کہاں رکھا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: ذروان نامی کنویں میں۔“ اس کے بعد نبی ﷺ کنویں کے پاس تشریف لے گئے اور واپس آکر حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3268]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ پر جادوبیویوں کے سلسلے میں ہوا تھا کہ آپ ان کے پاس نہ جا سکیں۔
آپ سمجھتے تھے کہ میں ان سے تعلق قائم کر سکتا ہوں لیکن تعلق قائم نہیں کر سکتے تھے چنانچہ ایک روایت میں ہے اس جادو کے اثر سے آپ کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ عورتوں سے صحبت کر رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوتا تھا۔
(صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6063)
الغرض اس جادو کا اثر آپ کے خیالات پر ہوا لیکن وحی اور تبلیغ رسالت میں اس کا کوئی اثر نہ ہو سکا۔
اتنا سا جو اثر ہو اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصلحت تھی۔
ایک روایت میں ہے آپ نے اس جادو کو کنویں سے نکلوایا لیکن رد عمل کے طور پر اس یہودی سے کوئی باز پرس نہ کی کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان جذبات میں آکر اسے قتل کردیں جبکہ اس روایت میں ہے کہ آپ نے اسے نکالا نہیں تھا۔
ان میں تطبیق کی یہ صورت ممکن ہے کہ اس وقت آپ نے نہیں نکلوایا تھا بعد میں کسی دوسرے وقت اسے نکلوایا اور اس کی تفصیل سے آپ مطلع ہوئے۔
اس کے متعلق مکمل بحث کتاب الطب میں ہو گی۔
2۔
امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ جادو کی تکمیل میں شیاطین کا ہاتھ ہوتا ہے اور یہ ان کی بری صفات میں سے ہے کہ جادو کے ذریعے سے خاوند اور بیوی کے درمیان اختلاف ڈال دیں۔
نتیجے کے طور پر ان میں تفریق ہو جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3268
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5763
5763. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ بنو زریق کے ایک یہودی شخص لبید بن اعصم نے رسول اللہ ﷺ پر جادو کر دیا، جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو کسی چیز کے متعلق خیال ہوتا کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے حالانکہ وہ نہ کیا ہوتا تھا حتیٰ کہ ایک دن یا رات آپ ﷺ میرے پاس تھے اور آپ نے بار بار دعا کی پھر فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ جو کچھ میں نے اللہ تعالٰی سے پوچھا تھا: اللہ تعالٰی نے مجھے اس کا جواب دے دیا ہے؟ میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ ایک نے اپنے دوسرے ساتھی پوچھا: اس صاحب کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ اس نے کہا: لبید بن اعصم نے۔ اس نے پوچھا: کس چیز میں (جادو کیا ہے)؟ دوسرے نے بتایا کنگھی اور اس سے جھڑنے والے بالوں میں، یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5763]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث پر اعتراض کیا گیا ہے کہ نبی پر جادو نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی کرے تو اس کا اثر نہیں ہو سکتا جبکہ اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا اور اس کا اثر بھی آپ پر ہوا۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ نبی پر جادو کا اثر ہونا تو قرآن سے ثابت ہے۔
فرعون کے جادوگروں نے جب لوگوں کے مجمع میں اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں تو وہ سانپ بن کر دوڑنے لگیں۔
اس دہشت کا اثر موسیٰ علیہ السلام پر ہوا جس کا قرآن نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:
”موسیٰ اپنے دل میں ڈر گئے تو ہم نے کہا:
ڈرو نہیں، تم ہی غالب رہو گے۔
“ (طه: 67/20، 68) (2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادو کے اثر سے کمزوری محسوس کی تاکہ یہود کو معلوم ہو جائے کہ جادو کے عمل میں کوئی کمی نہیں رہ گئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے جادو کے موثر ہونے کے باوجود اپنے نبی کو محفوظ رکھا جس طرح یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہریلا گوشت کھلا دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر کے اثر سے محفوظ رکھا۔
واضح رہے کہ یہودی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادو سے شہید کرنا چاہتے تھے۔
(3)
اس حدیث پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کفار کی بات نقل کی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سحر زدہ (مسحور)
کہتے تھے۔
(الفرقان: 25/8)
اگر آپ پر جادو کی اثر پذیری تسلیم کر لیں تو گویا ہم بھی کفار کے ہم نوا بن گئے۔
یہ اعتراض بھی بے بنیاد اور لغو ہے کیونکہ کفار کا الزام یہ تھا کہ نبی نے اپنی نبوت کے دعوے کا آغاز ہی سحر زدگی اور جنون سے کیا ہے اور یہ جو کچھ قیامت، آخرت، حشر و نشر اور جنت و دوزخ کے افسانے سناتا ہے وہ سب جادو کا اثر اور پاگل پن کی باتیں ہیں لیکن اس حدیث کا کفار کے اس قول سے کوئی تعلق نہیں۔
نبی بہرحال انسان ہوتے ہیں، اس لیے وہ جسمانی تشدد اور ذہنی پریشانی سے دوچار ہو سکتے ہیں، جس طرح طائف اور اُحد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے ہاتھوں زخمی ہوئے تھے۔
یہ چیز منصب نبوت کے منافی نہیں، البتہ اس واقعے کا یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز جادوگر نہ تھے کیونکہ جادوگر پر جادو کا اثر نہیں ہوتا۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5763
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5766
5766. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا اس کا یہ اثر ہوا کہ آپ اپنے خیال کے مطابق ایک کام کر چکے ہوتے لیکن وہ نہیں کیا ہوتا تھا آخر کار ایک دن آپ میرے پاس تشریف فر تھے تو آپ نے اللہ تعالٰی سے دعا کی پھر دعا مانگی، اس کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے اللہ تعالٰی سے جو بات پوچھی تھئ اس کا جواب اللہ تعالٰی سے جو بات پوچھی تھی اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے مجھے دے دیا ہے؟ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا پھر ایک نے دوسرے ساتھی سے کہا: اس صاحب کو کیا تکلیف ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ دسرے نے جواب دیا: لبید بن اعصم یہودی نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5766]
حدیث حاشیہ:
(1)
ابن سعد کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم کو اس کنویں پر بھیجا کہ وہاں جا کر جادو کا سامان اٹھا لائیں۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبیر بن ایاس زرقی کو بلایا جو غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے، انہوں نے بئر ذروان میں جادو کے سامان کی نشاندہی کی۔
ممکن ہے کہ آپ نے پہلے ان حضرات کو بھیجا ہو بعد میں خود بھی تشریف لے گئے ہوں اور خود اس کا مشاہدہ کیا ہو۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 283/10) (2)
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا اور چند روز تک اس کا اثر بھی رہا، شاید اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکمت تھی کہ آپ کا جادوگر نہ ہونا سب پر ظاہر ہو جائے کیونکہ جادوگر پر جادو اثر نہیں کرتا۔
یہود آپ کو حسد کی وجہ سے شہید کرنا چاہتے تھے، پہلے زہریلا گوشت کھلایا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچا لیا اور اب انہوں نے آپ پر سخت قسم کا جادو کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نجات دی اور یہود کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5766
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6063
6063. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا نبی ﷺ اتنے اتنے دن اس حال میں رہے آپ کو خیال ہوتا کہ اپنی بیوی کے پاس گئے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہوتا تھا حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ آپ ﷺ نے ایک دن مجھ سے فرمایا: عائشہ! میں نے اللہ تعالٰی سے ایک معماملے میں سوال کیا تھا تو اس نے مجھے حقیقت حال سے آگاہ کر دیا ہے: میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے پاؤں کے پاس اور دوسرا میرے سر کے قریب بیٹھ گیا۔ جو میرے پاؤں کے پاس تھا اس نے سر کے قریب بیٹھنے والے سے کہا کہ اس آدمی کا حال کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ اس پر جادو کر دیا گیا ہے۔ اس نے پوچھا: کس نے کیا ہے؟ اس نے کہا: ”لبید بن اعصم نے کیا ہے۔ پوچھا: کس چیز میں کیا ہے؟ بتایا کہ کنگھی کے بالوں کو نر کھجور کے چھلکے میں ڈال کر ذروان نامی کنویں میں ایک پتھر کے نیچے رکھ کر جادو کیا ہے۔“ نبی ﷺ وہاں تشریف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6063]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادوگر لبید بن اعصم پر قدرت رکھنے کے باوجود اسے سزا نہیں دی بلکہ اس پر صبر کیا اور برائی کو دبا دیا۔
آپ نے فرمایا:
”مجھے پسند نہیں کہ میں لوگوں شرکی تشہیر کروں۔
“ اس ارشاد کے دو معنی ہیں:
٭ مشتہر کرنے سے خطرہ تھا کہ مسلمان اسے پکڑ کر سزا دیں گے خواہ مخواہ ایک شور برپا ہوگا، آپ نے صبر سے کام لیتے ہوئے امن پسندی کا مظاہرہ کیا۔
٭مشتہر کرنے سے یہ بھی اندیشہ تھا کہ منافقین جادو سیکھ لیں گے اور مسلمانوں کو اس سے نقصان پہنچائیں گے، لہٰذا آپ نے اس معاملے کو دبا دیا۔
(2)
اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات کسی بڑے فساد اور شرکی روک تھام کے لیے مصلحت کو اختیار کیا جاتا ہے۔
مذکورہ آیات سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم سے منع کیا ہے اور وضاحت فرمائی کہ ظلم کا وبال ظالم کو پہنچتا ہے، پھر مظلوم کی مدد اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لے رکھی ہے، لہٰذا مظلوم کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسان کا شکر ادا کرتے ہوئے خود پر روا رکھے گئے ظلم وستم سے درگزر کرے اور ظالم کو معاف کر دے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادوگر کو معاف کر دیا تھا اور اسے کسی قسم کی سزا نہیں دی۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6063