ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے سمی نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مصیبت کی سختی، تباہی تک پہنچ جانے، قضاء و قدر کی برائی اور دشمنوں کے خوش ہونے سے پناہ مانگتے تھے اور سفیان نے کہا کہ حدیث میں تین صفات کا بیان تھا۔ ایک میں نے بھلا دی تھی اور مجھے یاد نہیں کہ وہ ایک کون سی صفت ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الدَّعَوَاتِ/حدیث: 6347]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6347
حدیث حاشیہ: اسماعیل کی روایت میں اس کی صراحت ہے کہ وہ چوتھی بات شماتت اعداء کی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6347
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6347
حدیث حاشیہ: (1) یہ دعا بہت جامع ہے کیونکہ مکروہ چیز کا تعلق اگر دنیا سے ہو تو اسے سوء القضاء کا نام دیا جاتا ہے اور آخرت سے ہو تو یہ درك الشقاء ہے کیونکہ اصل شقاوت اور بدبختی تو آخرت کی بدبختی ہے، پھر اگر اس کا تعلق معاش سے ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں: اگر کسی غیر کی طرف سے ہو تو شماتة الأعداء اور اگر اپنی طرف سے ہو تو وہ جهد البلاء ہے۔ (عمدة القاري: 44/15)(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر چاروں کلمات تردد کے بغیر بیان کیے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سخت مصیبت، بدبختی کے لاحق ہونے، بری تقدیر اور دشمنوں کی خوشی سے اللہ کی پناہ مانگو۔ “
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6347
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5493
´بری تقدیر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان تین چیزوں سے پناہ مانگتے تھے: ”شقاوت و بدبختی آ جانے سے، شماتت اعداء (یعنی دشمنوں کی مصیبت میں ہنسی)، بری تقدیر اور بری بلا سے۔“ سفیان کہتے ہیں: ان میں کوئی تین باتیں تھیں، چوں کہ مجھے نہیں یاد ہے کہ ان میں سے کون سی ایک بات نہیں تھی اس لیے چار کا ذکر کیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5493]
اردو حاشہ: (1) باقی تین چیزیں بھی سُوء القضاء کے تحت ہی آتی ہیں کیونکہ دنیا میں بری تقدیر شدید آزمائش اور مصیبت کی صورت میں ہوتی ہے جس سے دشمن ناروا طور پر خوش ہوتے ہیں۔ اور اگر اس کا تعلق آخرت سے ہو تو یہ انتہا درجے کی بد بختی ہے۔ (2) تقدیر کا برا ہونا متعلقہ شخص کے لحاظ سے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ اور ہر قضا و قدردرست اور اچھا ہے۔ والشرُّ ليس إليكَ۔ اگرچہ ہم اس کی حقیقت کو نہ جان سکیں۔ (3) بری تقدیر سے بچاؤکی دعا کی جا سکتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ مختارکل ہے۔ جب چاہے تقدیر بدل دے ﴿لا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ﴾ نیز دعا بھی اسباب میں سے ہے اور اسباب تقدیر کا حصہ ہیں۔ گویا تقدیر یوں تھی کہ یہ شخص دعا کرے گا اور اس سے سختی ڈال دی جائے گی‘ نیز دعا بھی عبادت ہے۔ ثواب تو ملے گا ہی۔ بندہ ہونے کے ناطے دعا کرنا ضروری ہے دعا سے انکار تکبر ہے۔ (4) شدید مصیبت اور آزمائش سے مراد وہ حالت ہے جس سے موت آسان معلوم ہو‘ جسمانی مصیبت ہو یا مالی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5493
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5494
´شقاوت و بدبختی آنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بری تقدیر، شماتت اعداء (دشمنوں کی مصیبت پر ہنسنے)، شقاوت بدبختی کے آنے اور بری بلا سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5494]
اردو حاشہ: بد بختی دنیا میں بھی ہو سکتی ہے کہ انسان حالات کے ہاتھوں پریشان رہے۔ اور بدبختی یہ ہے کہ زندگی گمراہی میں گزرے حتیٰ کہ موت بھی گمراہی پر آئے۔ العیاذ باللہ من سوء الخاتمة.
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5494
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1002
1002- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آزمائش کی سختی، بد بختی لاحق ہونے، برے فیصلے اور دشمن کی شماتت (طعن و تشنیع) سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ سفیان کہتے ہیں: ان چار میں سے تین چیز یں ہیں۔ (یعنی سفیان یہ کہتے ہیں ان چار میں سے تین تو وہی ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہیں ایک مجھ سے زیادہ ہوگئی ہے لیکن مجھے معلوم نہیں وہ کون سی زیادہ ہوئی ہے)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1002]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آزمائشوں، بدنصیبی، بری تقدیر اور دشمنی سے ہر وقت محفوظ رہنے کی دعا مانگنی چاہیے، یہ وہ چیزیں ہیں جن میں انسان بے بس ہوتا ہے، انسان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطے کو مضبوط کرنا چاہیے، اور عاجزی اختیار کر نی چاہیے تکبر وغیرہ سے کوسوں دور رہنا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1001
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6877
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بری تقدیر، بد بختی کے لا حق ہونے،دشمنوں کی شماتت (خوشی و مسرت)اور بلاؤں کی سختی سے پناہ مانگتے تھے۔"عمرو اپنی حدیث میں کہتے ہیں سفیان نے بتایا مجھے شک ہے، میں نےان میں ایک کا اضافہ کیا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6877]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث میں بظاہر چار چیزوں سے پناہ طلب کی گئی ہے، لیکن در حقیقت ان چار کے ضمن میں دنیا و آخرت کی ہر برائی و تکلیف اور پریشانی سے پناہ مانگی ہے، سب سے پہلے سوء القضاء ہے، اس میں نفس، مال، اولاد، اہل، دنیا اور آخرت کی ہر تکلیف اور پریشانی آگئی، اس طرح بدبختی کا لا حق ہونا، دَرَكِ الشِقاء میں ہر قسم اور ہر نوع کی بدبختی آگئی تو جس کو بری تقدیر اور بدبختی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ اور حفاظت میسر آگئی، اسے سب کچھ مل گیا، وہ کسی چیز سے بھی محروم نہ رہا، دنیا اور آخرت کی ہر چیز اس میں داخل ہے اور دشمنوں کو فرحت و مسرت، انسان کی کسی ناکامی اور مصیبت میں مبتلا ہونے پر ہوتی ہے اور دشمنوں کی شماتت اور طعنہ زنی انسان کے لیے بڑی روحانی اور ذہنی تکلیف کا باعث بنتی ہے، اس لیے اس کو الگ بیان کیا، حالانکہ یہ پہلی دونو چیزوں کے اندر موجود ہے، اس طرح جهد البلاء کسی مصیبت کی مشقت اور سختی اور بلاہر اس حالت کا نام ہے، جو انسان کے لیے باعث تکلیف ہو اور پریشانی کا سبب بنے، جس میں اس کا امتحان و آزمائش ہو اور یہ دنیوی بھی ہو سکتی ہے اور دینی بھی، روحانی بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی بھی، انفرادی و شخصی بھی ہو سکتی ہے اور اجتماعی بھی، اس طرح اس ایک ہی لفظ میں ہر قسم کے مصائب و تکالیف اور آفات و مشکلات آجاتی ہیں، اس روایت میں سفیان نے شماتة الاعداء کا اضافہ کیا ہے، لیکن یہ دوسری روایات میں موجود ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6877
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6616
6616. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں: آپ نے فرمایا: ”مصیبت کی شدت بد بختی سے، برے خاتمے اور دشمن کی خوشی سے اللہ کی پناہ مانگا کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6616]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت مصیبت، بدبختی لاحق ہونے، بری تقدیر اور دشمنوں کی خوشی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6347) تقدیر کا اچھا یا برا ہونا مخلوق کے اعتبار سے ہے کیونکہ خالق کا ہر کام خیر و برکت پر مبنی ہوتا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان پر پیش کردہ آیات سے اس شخص کی تردید کی جو دعویٰ کرتا ہے کہ انسان اپنے فعل کا خود خالق ہے کیونکہ اگر برا کام انسان نے خود پیدا کیا ہے تو اس سے اللہ تعالیٰ کے ذریعے سے پناہ مانگنے کا کیا فائدہ ہے۔ (فتح الباري: 625/11) واللہ أعلم۔ اس حدیث کی تشریح حدیث: 6347 کے فوائد میں گزر چکی ہے، اسے ایک نظر دیکھ لیا جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6616