مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3081
3081. حضرت ابو عبدالرحمان سے روایت ہے جو کہ عثمانی ہیں انھوں نے حضرت ابن عطیہ سے کہا جو علوی تھے، میں خوب جانتا ہوں کہ تمہارے صاحب (حضرت علی ؓ) کو کس چیز سے خون بہانے پر جرات ہوئی۔ میں نے خود ان سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے اور حضرت زبیر ؓ کو نبی کریم ﷺ نے روانہ کیا اور ہدایت فرمائی: ”جب تم فلاں روضہ پر پہنچو تو وہاں تمھیں ایک عورت ملے گی جسے حاطب بن ابی بلتعہ ؓنے ایک خط دے کر بھیجا ہے۔ ”چنانچہ جب ہم اس باغ میں پہنچے تو ہم نے اس عورت سے وہ خط لانے کو کہا۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے اس (حاطب ؓ) نے کوئی خط نہیں دیا۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط خود بخود نکال کرہمارے حوالے کردو بصورت دیگر (تلاشی لینے کے لیے) تیرے کپڑے اتار دیے جائیں گے۔ اس کے بعد اس نے وہ خط اپنے مقعد ازار سے نکالا۔ آپ ﷺ نے حضرت حاطب کو بلا بھیجا تو انھوں نے عرض کیا: آپ میرے بارے میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3081]
حدیث حاشیہ:
ابو عبدالرحمن کا کلام مبالغہ ہے۔
حضرت علی ؓ کی خدا ترسی اور پرہیزگاری سے بعید ہے کہ وہ خون ناحق کریں۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ ضرورت کے وقت عورت کی تلاشی لینا‘ اس کا برہنہ کرنا درست ہے۔
بعض روایتوں میں یہ ہے کہ اس عورت نے وہ خط اپنی چوٹی میں سے نکال کر دیا۔
اس پر حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں:
والجمع بینه وبین روایة أخرجته من حجزتها أي مقعد الإذار لأن عقیصتها طویلة بحیث تصل إلی حجزتها فربطته في عقیصتها وغزرته بحجزتها (الخ)
یعنی ہر دو روایتوں میں مطابقت یہ ہے کہ اس عورت کے سر کی چوٹی اتنی لمبی تھی کہ وہ ازار بند باندھنے کی جگہ تک لٹکی ہوئی تھی‘ اس عورت نے اس کو چٹیا کے اندر گوندھ کر نیچے مقعد کے پاس ازار میں ٹانک لیا تھا۔
چنانچہ اس جگہ سے نکال کر دیا۔
راویوں نے جیسا دیکھا بیان کر دیا۔
سلف امت میں جو لوگ حضرت عثمان ؓ کو حضرت علی ؓ پر فضیلت دیتے انہیں عثمانی کہتے اور جو حضرت علی ؓ کو حضرت عثمان ؓ پر فضیلت دیتے انہیں علوی کہتے تھے۔
یہ اصطلاح ایک زمانہ تک رہی‘ پھر ختم ہو گئی۔
اہل سنت میں یہ عقیدہ قرار پایا کہ کسی صحابی کو کسی پر فوقیت نہیں دینا چاہئے۔
وہ سب عنداللہ مقبول ہیں‘ ان میں فاضل کون ہے اور مفضول کون‘ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
یوں خلفائے اربعہ کو حسب ترتیب خلافت اور صحابہ پر فوقیت حاصل ہے‘ پھر عشرہ مبشرہ کو رضي اللہ عنهم أجمعین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3081
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3983
3983. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے، ابومرثد اور حضرت زبیر ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے ایک مہم پر روانہ کیا۔ ہم سب شہسوار تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم سب چلتے رہو، جب تم روضہ خاخ پر پہنچو تو وہاں تمہیں مشرکین کی عورت ملے گی، اس کے پاس ایک خط ہے جو حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے نام ہے۔“ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے جس جگہ کا پتہ دیا تھا ہم نے وہیں اس عورت کو ایک اونٹ پر جاتے ہوئے پایا۔ ہم نے اسے کہا: خط ہمارے حوالے کر دو۔ اس نے کہا: ہمارے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھا کر اس کی تلاشی کی تو واقعی ہمیں کوئی خط نہ ملا لیکن ہم نے اسے کہا: رسول اللہ ﷺ کی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔ خط ہمارے حوالے کر دو بصورت دیگر ہم تجھے ننگا کر دیں گے۔ جب اس نے ہمارا یہ سخت رویہ دیکھا تو اس نے اپنا ہاتھ اپنے کمر بند کی طرف مائل کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3983]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر ؓ کی رائے ملکی قانون اور سیاست پر مبنی تھی کہ جو شخص ملک و ملت کے ساتھ بے وفائی کر کے جنگی راز دشمن کو پہونچا ئے وہ قابل موت مجرم ہے مگر حضرت حاطب ؓ کے متعلق آنحضرت ا نے ان کی صحیح نیت جان کراور ان کے بدری ہونے کی بنا پر حضرت عمر ؓ کی ان کے متعلق رائے سے اتفاق نہیں فرمایا بلکہ ان کی اس لغزش کو معاف فرما دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3983
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6939
6939. سعد بن عبیدہ سلمی سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابو عبدالرحمن اور حبّان بن عطیہ کا آپس میں اختلاف ہوا۔ اس دوران میں ابو عبدالرحمن نے حبان سے کہا: مجھے معلوم ہے کہ آپ کے ساتھی کو کس چیز نے خون ریزری پر دلیر کیا ہے۔ اس سے مراد حضرت علی ؓ تھے۔ حبان نے کہا: تیرا باپ نہ ہو! ”وہ کیا ہے؟“ ابو عبدالرحمن نے کہا: میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حضرت زبیر اور حضرت ابو مرثد ؓ کو ایک مہم کے لیے بھیجا جبکہ ہم گھوڑوں پر سوار تھے، آپ نے فرمایا: جاؤ اور روضہ حاج پہنچو۔ ابو اسلمہ نے کہا: ابو عوانہ نے اسی طرح (روضہ خاخ کے بجائے روضہ) حاج کہا ہے۔۔ وہاں ایک عورت ہے، اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو اس نے مشرکین مکہ کے نام لکھا ہے۔ تم وہ (خط) میرے پاس لاؤ۔ ہم اپنے گھوڑوں پر سوار ہوکر دوڑ پڑے، چنانچہ ہم نے اسے جگہ پایا جہاں رسول اللہ ﷺ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6939]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کئی بار اوپر گزر چکی ہے۔
باب کا مطلب اس طرح نکلا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے نزدیک حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو خائن سمجھا۔
ایک روایت کی بنا پر ان کو منافق بھی کہا مگر چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایسا خیال کرنے کی ایک وجہ تھی یعنی ان کا خط پکڑا جانا جس میں اپنی قوم کا نقصان تھا تو گویا وہ تاویل کرنے والے تھے اور اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کوئی مواخذہ نہیں کیا۔
اب یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ایک بار جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب کی نسبت یہ فرمایا کہ وہ سچا ہے تو پھر دوبارہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مار ڈالنے کی اجازت کیوں کر چاہی اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت کی رائے ملکی اور شرعی قانون ظاہری پر تھی جو شخص اپنے بادشاہ اپنی قوم کا راز دشمنوں پر ظاہر کرے اس کی سزا موت ہے اور ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے سے کہ وہ سچا ہے ان کی پوری تشفی نہیں ہوئی کیوں کہ سچا ہونے کی صورت میں بھی ان کا عذر اس قابل نہ تھا کہ اس جرم کی سزا سے وہ بری ہو جاتے۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہ فرمایا کہ اللہ نے بدریوں کے سب قصور معاف فرما دیئے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تسلی ہو گئی اور اپنا خیال انہوں نے چھوڑ دیا اس سے بدری صحابہ کے جنتی ہونے کا اثبات ہوا۔
لفظ لا أبا لك عربوں کے محاورہ میں اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی شخص ایک عجیب بات کہتا ہے مطلب یہ ہوتا ہے کہ تیرا کوئی ادب سکھانے والا باپ نہ تھا جب ہی تو بے ادب رہ گیا۔
ابوعبدالرحمن عثمانی تھے اور حبان بن عطیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے طرف دارتھے۔
ابوعبدالرحمن کا یہ کہنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت صحیح نہ تھا کہ وہ بے وجہ شرعی مسلمانوں کی خونریزی کرتے ہیں۔
انہوں نے جو کچھ کہا حکم شرعی کے تحت کہا ابوعبدالرحمن کو یہ بدگمانی یوں ہوئی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت سنائی تھی کہ جنگ بدر میں شرکت کرنے والے بخشے ہوئے ہیں اللہ پاک نے بدریوں سے فرمادیا کہ ﴿اِعمَلُوا مَاشِئتُم فَقَد اَوجَبتُ لَکُمُ الجَنَّةَ﴾ تم جو چاہو عمل کرو میں تمہارے لیے جنت واجب کر چکا ہوں چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی بدری ہیں اس لیے اب وہ اس بشارت خدائی کے پیش نظر خون ریزی کرنے میں جری ہوگئے ہیں۔
ابوعبدالرحمن کا یہ گمان صحیح نہ تھا ناحق خون ریزی کرنا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بالکل بعید تھا۔
جو کچھ انہوں نے کیا شریعت کے تحت کیا یوں بشری لغزش امر دیگر ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ ابوطالب کے بیٹے ہیں، نوجوانوں میں اولین اسلام قبول کرنے والے ہیں۔
عمر دس سال یا پندرہ سال کی تھی۔
جنگ تبوک کے سوا سب جنگوں میں شریک ہوئے۔
گندم گوں، بڑی بڑی آنکھوں والے، درمیانہ قد، بہت بال والے، چوڑی داڑھی والے، سر کے اگلے حصہ میں بال نہ تھے۔
جمعہ کے دن 18ذی الحجہ 35 ھ کو خلیفہ ہوئے یہی شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کا دن ہے۔
ایک خارجی عبدالرحمن بن ملجم مرادی نے18 رمضان بوقت صبح بروز جمعہ 40ھ میں آپ کو شہید کیا۔
زخمی ہونے کے بعد تین رات زندہ رہے، 63 سال کی عمر پائی۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم اجمعین نے نہلایا اور حضرت حسن نے نماز جنازہ پڑھائی۔
صبح کے وقت دفن کئے گئے۔
مدت خلافت چار سال نو ماہ اور کچھ دن ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ رابع برحق ہیں۔
بہت ہی بڑے دانش مند اسلام کے جرنیل، بہادر اور صاحب مناقب کثیرہ ہیں آپ کی محبت جزوایمان ہے۔
تینوں خلافتوں میں ان کا بڑا مقام رہا۔
بہت صائب الرائے اور عالم و فاضل تھے۔
صد افسوس کہ آپ کی ذات گرامی کو آڑ بنا کر ایک یہودی عبداللہ بن سبا نے امت مسلمہ میں خانہ جنگی و فتنہ و فساد کو جگہ دی۔
یہ محض مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے بظاہر مسلمان ہوگیا تھا۔
اس نے یہ فتنہ کھڑا کیا کہ خلافت کے وصی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں، حضرت عثمان ناحق خلیفہ بن بیٹھے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافت کے لیے حضرت علی کو اپنا وصی بنا گئے ہیں، لہٰذا خلافت صرف حضرت علی ہی کا حق ہے۔
عبداللہ بن سبا نے یہ ایسی من گھڑت بات ایجاد کی تھی جس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد میں خلافت صدیقی و فاروقی و عثمانی میں کوئی ذکر نہیں تھا مگر نام چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے عالی منقبت کا تھا اس لیے کتنے سادہ لوح لوگوں پر اس یہودی کا یہ جادو چل گیا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اندوہناک واقعہ اسی فتنہ کی بنا پر ہوا۔
آپ بیاسی سال کی عمر میں 18ذی الحجہ 35ھ کو جبکہ آپ قرآن شریف کی آیت ﴿فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ﴾ پر پہنچے تھے کہ نہایت بے دردی سے شہید کئے گئے اور آپ کے خون کی دھار قرآن پاک کے ورق پر اسی آیت کی جگہ جا کر پڑی۔
رضي اللہ عنه۔
الحمد للہ حرمین شریفین کے سفر میں تین بار آپ کی قبر پر دعائے مسنون پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔
اللہ پاک قیامت کے دن ان سب بزرگوں کی زیارت نصیب کرے آمین۔
شہادت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے امت کا نظام ایسا منتشر ہوا جو آج تک قائم ہے اور شاید قیامت تک بھی نہ ختم ہو------فلیبك علی الإسلام من کان باکیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6939
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3007
3007. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، حضرت زبیر ؓاور حضرت مقداد بن اسود ؓ کو ایک مہم پرروانہ کیا اور فرمایا: ”تم چلتے رہو حتی کہ روضہ خاخ پہنچ جاؤ۔ وہاں تمھیں اونٹ پر سوار ایک عورت ملے گی۔ اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے آؤ۔“ ہم وہاں سے روانہ ہوئے اور ہمارے گھوڑے ہمیں لیے تیز ی سے دوڑے جا رہے تھے یہاں تک کہ ہم روضہ خاک پہنچ گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں اونٹ سوار ایک عورت ہے۔ ہم نے اسے کہا: خط نکال۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے کہا: خط نکال دو ورنہ ہم تیرے کپڑے اتاردیں گے، چنانچہ اس نے اپنے سر کے جوڑے سےخط نکالا۔ ہم وہ خط لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے خط کھول کر پڑھا تو اس میں یہ مضمون تھا: یہ خط حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کی طرف سے چند مشرکین کے نام ہے، وہ انھیں رسول اللہ ﷺ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3007]
حدیث حاشیہ:
مضمون خط کا یہ تھا ”أما بعد! قریش کے لوگو! تم کو معلوم رہے کہ آنحضرتﷺ ایک جرار لشکر لئے ہوئے تمہارے سر پر آتے ہیں۔
اگر آپ اکیلے آئیں تو بھی اللہ آپ کی مدد کرے گا اور اپنا وعدہ پورا کرے گا‘ اب تم اپنا بچاؤ کرلو‘ والسلام“۔
حضرت عمر ؓ نے قانون شرعی اور قانون سیاست کے مطابق رائے دی کہ جو کوئی اپنی قوم یا سلطنت کی خبر دشمنوں کو پہنچائے وہ سزائے موت کے قابل ہے لیکن آنحضرتﷺ نے حضرت حاطبؓ کی نیت میں کوئی فتور نہیں دیکھا اور یہ بھی کہ وہ بدری صحابہ میں سے تھے جن کی جزوی لغزشوں کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی معاف کردیا ہے۔
اس لئے ان کی اس سیاسی غلطی کو آنحضرتﷺ نے نظر انداز فرما دیا اور حضرت عمرؓ کی رائے کو پسند نہیں فرمایا۔
معلوم ہوا کہ ذمہ دار لوگوں کے بعض انفرادی یا اجتماعی معاملات ایسے بھی آجاتے ہیں کہ ان میں سخت ترین غلطیوں کو بھی نظر انداز کردینا ضروری ہو جاتا ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ فتویٰ دینے سے قبل معاملے کے ہر ہر پہلو پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
جو لوگ بغیر غور و فکر کئے سرسری طور پر فتویٰ دے دیتے ہیں بعض دفعہ ان کے ایسے فتوے بہت سے فسادات کے اسباب بن جاتے ہیں۔
خاخ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک گاؤں کا نام تھا۔
اس حدیث سے اہل بدر کی بھی فضیلت ثابت ہوئی کہ اللہ پاک نے ان کی جملہ لغزشوں کو معاف فرما دیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3007
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4274
4274. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، حضرت زبیر اور حضرت مقداد رضی اللہ عنھم کو روانہ فرمایا اور حکم دیا: ”تم چلتے رہو حتی کہ روضہ خاخ پہنچو۔ یقینا وہاں تمہیں اونٹنی پر سوار عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہے۔ تم اس سے حاصل کر کے لے آؤ۔“ انہوں نے کہا: ہم وہاں سے چل پڑے۔ ہمارے گھوڑے ہمیں بڑی تیزی سے لے جا رہے تھے۔ جب ہم روضہ خاخ پہنچے تو واقعی وہاں ہمیں اونٹنی پر سوار ایک عورت ملی۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال دے، وہ کہنے لگی: میرے پاس کوئی خط وغیرہ نہیں ہے۔ ہم نے کہا: تجھے خط نکالنا ہو گا بصورت دیگر ہم تیرے کپڑے اتار پھینکیں گے، چنانچہ اس نے اپنے بالوں کے جوڑے سے خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا جسے لے کر ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس میں یہ لکھا تھا: ”حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے نام۔“ اس خط کے ذریعے سے وہ رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4274]
حدیث حاشیہ:
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ نے مشرکین مکہ کو لکھا تھا کہ رسول کریم ﷺ مکہ پر فوج لے کر آنا چاہتے ہیں تم اپنا انتظام کر لو۔
حضرت عمر ؓ نے جو کچھ کہا وہ ظاہری قانونی سیاست کے مطابق تھا۔
مگر آنحضرت ﷺ کو ان کی سچائی وحی سے معلوم ہو گئی۔
لہذا آپ نے ان کی غلطی سے در گزر فرمایا۔
معلوم ہوا کہ بعض امور میں محض ظاہری وجوہ کی بنا پر فتوی ٹھوک دینا درست نہیں ہے۔
مفتی کو لازم ہے کہ ظاہر وباطن کے جملہ امور وحالات پر خوب غور وخوض کرکے فتوی نویسی کرے۔
روایت میں غزوئہ فتح مکہ کے عزم کا ذکر ہے یہی باب سے وجہ مطابقت ہے۔
فتح الباری میں حضرت حاطب ؓ کے خط کے یہ الفاظ منقول ہوئے ہیں:
(يَا مَعْشَر قُرَيْش فَإِنَّ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَكُمْ بِجَيْشٍ كَاللَّيْلِ , يَسِير كَالسَّيْلِ , فَوَاَللَّهِ لَوْ جَاءَكُمْ وَحْدَهُ لَنَصَرَهُ اللَّه وَأَنْجَزَ لَهُ وَعْده. فَانْظُرُوا لأَنْفُسِكُمْ وَالسَّلام)
وا قدی نے یہ لفظ نقل کئے ہیں۔
أن حاطب كتب إلی سہیل بن عمرو و صفوان بن أسد وعکرمة أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم أذن في الناس بالغزو ولا أرادہ یرید غیرکم وقد أحببت أن یکون لي عندکم ید۔
ان کا خلاصہ یہ کہ رسول کریم ﷺ ا یک لشکر جرار لے کر تمہارے اوپر چڑھائی کر نے والے ہیں تم لوگ ہوشیار ہو جاؤ۔
میں نے تمہارے ساتھ احسان کرنے کے لیے ایسا لکھا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4274
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3007
3007. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، حضرت زبیر ؓاور حضرت مقداد بن اسود ؓ کو ایک مہم پرروانہ کیا اور فرمایا: ”تم چلتے رہو حتی کہ روضہ خاخ پہنچ جاؤ۔ وہاں تمھیں اونٹ پر سوار ایک عورت ملے گی۔ اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے آؤ۔“ ہم وہاں سے روانہ ہوئے اور ہمارے گھوڑے ہمیں لیے تیز ی سے دوڑے جا رہے تھے یہاں تک کہ ہم روضہ خاک پہنچ گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں اونٹ سوار ایک عورت ہے۔ ہم نے اسے کہا: خط نکال۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے کہا: خط نکال دو ورنہ ہم تیرے کپڑے اتاردیں گے، چنانچہ اس نے اپنے سر کے جوڑے سےخط نکالا۔ ہم وہ خط لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے خط کھول کر پڑھا تو اس میں یہ مضمون تھا: یہ خط حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کی طرف سے چند مشرکین کے نام ہے، وہ انھیں رسول اللہ ﷺ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3007]
حدیث حاشیہ:
1۔
علامہ عینی ؒنےسُہیلی ؒ کے حوالے سے حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کے خط کا مضمون ان الفاظ میں لکھا ہے۔
”أمابعد! قریش کے لوگو! تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ ایک لشکر جرار لے کر مکہ کی طرف آرہے ہیں۔
اگر آپ اکیلے بھی آجائیں تو بھی اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے گا اور اپنا وعدہ پورا کرے گا۔
اب تم اپنا بچاؤ کر لو۔
“ (عمدة القاري: 321/10)
حضرت عمر ؓ نے حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کے متعلق جو رائے دی وہ شرعی اور سیاسی قانون کے عین مطابق تھی کہ انسان اپنی قوم یا حکومت کی خبر دشمن تک پہنچائے وہ قابل گردن زونی ہے لیکن رسول اللہ ﷺ نے بعض مصالح کے پیش نظر اس رائے سے اتفاق نہ کیا۔
2۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذمہ دار حضرات کے بعض انفرادی یا اجتماعی معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان میں سنگین غلطیوں کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔
امام بخاری ؒ نے عنوان کے تحت ایک آیت کا حوالہ دیا ہے۔
حدیث میں اس آیت کا پس منظر بیان ہوا ہے اس سے کفار کے جاسوس کا حکم معلوم ہوتا ہے کہ جب کسی مسلمان کو اس کی جاسوسی کا علم ہو جائے تو اس کا معاملہ حاکم وقت تک پہنچانا چاہیے تاکہ وہ اس کے متعلق مناسب رائے قائم کر کے کوئی فیصلہ دے۔
3۔
ہمارے نزدیک جاسوسی کا حکم یہ ہے کہ جب وہ کفار کی طرف سے ہو تو محض شرہے اور اگر مسلمانوں کی طرف سے ہو تو وہ جنگی مصلحت کی وجہ سے خیر پر مبنی ہوتی ہے امام بخاری ؒ نے کفار کی طرف سے جاسوسی کا حکم اور مسلمانوں کی طرف سے اس کی مشروعیت بتانے کے لیے مذکورہ عنوان اور پیش کردہ حدیث ذکر کی ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3007
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3081
3081. حضرت ابو عبدالرحمان سے روایت ہے جو کہ عثمانی ہیں انھوں نے حضرت ابن عطیہ سے کہا جو علوی تھے، میں خوب جانتا ہوں کہ تمہارے صاحب (حضرت علی ؓ) کو کس چیز سے خون بہانے پر جرات ہوئی۔ میں نے خود ان سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے اور حضرت زبیر ؓ کو نبی کریم ﷺ نے روانہ کیا اور ہدایت فرمائی: ”جب تم فلاں روضہ پر پہنچو تو وہاں تمھیں ایک عورت ملے گی جسے حاطب بن ابی بلتعہ ؓنے ایک خط دے کر بھیجا ہے۔ ”چنانچہ جب ہم اس باغ میں پہنچے تو ہم نے اس عورت سے وہ خط لانے کو کہا۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے اس (حاطب ؓ) نے کوئی خط نہیں دیا۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط خود بخود نکال کرہمارے حوالے کردو بصورت دیگر (تلاشی لینے کے لیے) تیرے کپڑے اتار دیے جائیں گے۔ اس کے بعد اس نے وہ خط اپنے مقعد ازار سے نکالا۔ آپ ﷺ نے حضرت حاطب کو بلا بھیجا تو انھوں نے عرض کیا: آپ میرے بارے میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3081]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ ضرورت کے وقت کسی بھی عورت کی تلاشی لینا یا اسے برہنہ کرنا درست ہے۔
خاص طور پر جاسوسی مرد ہو یاعورت جب اس کے برہنہ کرنے میں مصلحت ہویا اس کی ستر پوشی میں فساد کا اندیشہ ہوتو اس کا انکشاف ضروری ہے۔
2۔
قاعدہ ہے کہ ضرورت کے وقت ممنوع چیزیں مباح قرارپاتی ہیں۔
یہ قاعدہ اسی قسم کی احادیث سے ماخوذ ہے۔
ابوعبدالرحمٰن کے کلام میں انتہائی مبالغہ ہے کیونکہ حضر ت علی ؓ کی للہیت اور تقویٰ شعاری سے بعید ہے کہ وہ کسی کا خون ناحق کریں۔
3۔
واضح رہے کہ سلف میں جو لوگ حضرت عثمان ؓ کو حضرت علی ؓ پر فضیلت دیتے تھے انھیں عثمانی اور جو لوگ حضرت علی ؓ کو حضرت عثمان ؓ پربرتری دیتے تھے انھیں علوی کہا جاتا تھا۔
یہ اصطلاح ایک زمانے تک رہی پھر ختم ہوگئی۔
اب خاندانی نسبت کی حد تک ایسا کہا جاتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3081
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3983
3983. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے، ابومرثد اور حضرت زبیر ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے ایک مہم پر روانہ کیا۔ ہم سب شہسوار تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم سب چلتے رہو، جب تم روضہ خاخ پر پہنچو تو وہاں تمہیں مشرکین کی عورت ملے گی، اس کے پاس ایک خط ہے جو حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے نام ہے۔“ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے جس جگہ کا پتہ دیا تھا ہم نے وہیں اس عورت کو ایک اونٹ پر جاتے ہوئے پایا۔ ہم نے اسے کہا: خط ہمارے حوالے کر دو۔ اس نے کہا: ہمارے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھا کر اس کی تلاشی کی تو واقعی ہمیں کوئی خط نہ ملا لیکن ہم نے اسے کہا: رسول اللہ ﷺ کی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔ خط ہمارے حوالے کر دو بصورت دیگر ہم تجھے ننگا کر دیں گے۔ جب اس نے ہمارا یہ سخت رویہ دیکھا تو اس نے اپنا ہاتھ اپنے کمر بند کی طرف مائل کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3983]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں اہل بدر کی فضیلت بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھا انھیں معاف کردیا اور ان کے لیے جنت کو واجب کردیا۔
آئندہ تم جو چاہو کرو۔
یہ خوش خبری گناہ کو جائز سمجھنے کے لیے نہیں ہے جو خلاف شرع ہوں کیونکہ اس خوش خبری کا تعلق احکام دنیا سے نہیں بلکہ امور آخرت سے ہے۔
حدود وغیرہ کے ارتکاب پر ان کا اجراء ہوگا جیسا کہ حضرت قدامہ بن مظعون ؓ بدری صحابی ہیں۔
انھوں نے شراب پی تو حضرت عمر ؓ نے ان پر حد جاری فرمائی۔
وہ ناراض ہو کر وہاں سے چلے گئے۔
حضرت عمر ؓنے خواب میں دیکھا کہ انھیں مصالحت کے لیے حکم دیا جا رہا ہے تو انھوں نے حضرت قدامہ ؓ کو بلا کر ان سے صلح کر لی۔
(السنن الکبری للنسائي: 138/5، رقم 5270۔
وفتح الباري: 382/7)
اس سے مراد گزشتہ گنا ہ نہیں بلکہ آئندہ جو صادر ہوں گے ان کی معافی کا اعلان ہے ابو عبد الرحمٰن سلمی تابعی نے اس حدیث سے یہی سمجھا ہے، چنانچہ ایک مرتبہ ان کا حبان بن عطیہ سے کسی بات پر جھگڑا ہوا تو ابو عبدالرحمٰن سے کہا کہ حضرت علی ؓ کو جنگ وقتال کی جرات ایک حدیث کی وجہ سے ہوئی پھر انھوں نے یہی حدیث بیان کی کہ اس میں اہل بدر کے متعلق امور یہ تو مستقبلہ کی معافی کا ذکرہے۔
(صحیح البخاري، استابة المرتدین، حدیث: 6939۔
)
2۔
حضرت عمر ؓ دین کے معاملے میں بہت سخت تھے۔
منافقین کے متعلق ان کا سخت رویہ تو مشہور ہے۔
ان کی رائے ملکی قانون اور سیاست پر مبنی تھی کہ جو شخص ملک و ملت کے ساتھ بے وفائی کر کے جنگی راز دشمن کو پہنچائےوہ مجرم قابل گردن زونی ہے اس قسم کی فوجی غلطی پر اس کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے اور اس پر نفاق کا اطلاق بھی نفاق عقیدہ کے طور پر نہیں بلکہ نفاق عملی کے اعتبار سے تھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان کی صحیح نیت جان کر اور ان کے بدری ہونے کی بنا پر حضرت عمر ؓ سے اتفاق نہیں کیا بلکہ انھیں معذور قراردے کر چھوڑدیا، پھر اس سے حضرت عمر ؓ کا اشکبار ہونا شدت خوشی کی وجہ سے تھا کیونکہ مذکورہ عظیم خوش خبری انھیں بھی شامل تھی۔
یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کا آبدیدہ ہو نا رنج و غم کی وجہ سے ہو کہ میں نے خواہ مخواہ حضرت حاطب ؓ کے متعلق سختی کی اور انھیں منافق کہا۔
اگرچہ وہ نفاق عملی تھا لیکن رسول اللہ ﷺ کے کلام سے واضح ہو گیا کہ ان کی شان اس نفاق عملی سے بھی بلند اور ارفع تھی۔
واضح رہے کہ خوشی کے آنسو ٹھنڈے اور رنج والم کے گرم ہوتے ہیں۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3983
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4274
4274. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، حضرت زبیر اور حضرت مقداد رضی اللہ عنھم کو روانہ فرمایا اور حکم دیا: ”تم چلتے رہو حتی کہ روضہ خاخ پہنچو۔ یقینا وہاں تمہیں اونٹنی پر سوار عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہے۔ تم اس سے حاصل کر کے لے آؤ۔“ انہوں نے کہا: ہم وہاں سے چل پڑے۔ ہمارے گھوڑے ہمیں بڑی تیزی سے لے جا رہے تھے۔ جب ہم روضہ خاخ پہنچے تو واقعی وہاں ہمیں اونٹنی پر سوار ایک عورت ملی۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال دے، وہ کہنے لگی: میرے پاس کوئی خط وغیرہ نہیں ہے۔ ہم نے کہا: تجھے خط نکالنا ہو گا بصورت دیگر ہم تیرے کپڑے اتار پھینکیں گے، چنانچہ اس نے اپنے بالوں کے جوڑے سے خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا جسے لے کر ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس میں یہ لکھا تھا: ”حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے نام۔“ اس خط کے ذریعے سے وہ رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4274]
حدیث حاشیہ:
1۔
روضہ خاخ، مدینہ طیبہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان ایک مقام ہے۔
حضرت حاطب ؓ نے اس عورت کو دس دینار دیے تھے کہ وہ اس خط کو مشرکین مکہ تک بحفاظت پہنچادے لیکن بذریعہ وحی یہ راز فاش ہوگیا۔
2۔
حضرت عمر ؓ نے جو کچھ کہا وہ ظاہری اور قانونی سیاست کے مطابق تھا مگر رسول اللہ ﷺ کو حضرت حا طب ؓ کی سچائی بذریعہ وحی معلوم ہوگئی، اس بنا پر آپ نے ان کوغلطی سے درگزر فرمایا۔
3۔
اس سے معلوم ہوا کہ بعض معاملات میں محض ظاہری حالات کودیکھ کر فیصلہ کرنا قرین قیاس نہیں ہوتا۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ سن کر حضرت عمر ؓ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور انھوں نے کہا:
اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 3983۔
)
4۔
بہرحال اس طرح اللہ تعالیٰ نے اہم راز راستے ہی میں پکڑ وادیا اور مسلمانوں کی جنگی تیاریوں کی کوئی خبرقریش تک نہ پہنچ سکی، بالآخر نبی کریم ﷺ نے 10 رمضان المبارک کو مدینہ طیبہ چھوڑ کر مکہ مکرمہ کا رخ کیا اور آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام ؓ کی نفری تھی۔
اس کی تفصیل آئندہ حدیث میں بیان ہوگی۔
باذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4274
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4890
4890. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے، حضرت زبیر اور حضرت مقداد ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے روانہ کیا اور فرمایا: ”جاؤ، جب تم روضہ خاخ پر پہنچو تو وہاں تمہیں ہودج میں سوار ایک عورت ملے گی۔ اس کے پاس ایک خط ہو گا۔ تم نے وہ خط اس سے حاصل کرنا ہے۔“ چنانچہ ہم روانہ ہوئے اور ہمارے گھوڑے تیزی کے ساتھ ہمیں منزل مقصود کی طرف لے جا رہے تھے۔ آخر جب ہم روضہ خاخ پہنچے تو واقعی وہاں ہم نے ہودج میں سوار ایک عورت کو پایا۔ ہم نے اس سے کہا: خط نکال دو۔ اس نے کہا: میرے پاس تو کوئی خط نہیں۔ ہم نے کہا: خط نکال دو بصورت دیگر ہم تیرے کپڑے اتار (کر تیری تلاشی) لیں گے۔ آخر اس نے اپنی چوٹی سے خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا۔ ہم وہ خط لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس خط میں لکھا تھا: حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین کے چند افراد کے نام جو مکہ میں تھے۔ اس خط میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4890]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اس نے سچ سچ بتا دیا ہے اب اس کے متعلق خیر کے علاوہ کچھ نہ کہو۔
“حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس نے اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان سے خیانت کا ارتکاب کیا ہے آپ مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کیا وہ اہل بدر میں سے نہیں ہے؟ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے تم جو چاہو کرو میں نے تمھارے لیے جنت واجب کردی ہے۔
“ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں عرض کرنے لگے۔
اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 8339)
2۔
صحیح بخاری کی روایت میں یہ صراحت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عذر سن کر انھیں معاف کر دیا ہواور کسی ذریعے سے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ انھیں اس جرم کی کوئی سزا دی گئی ہو اس بناء پر علمائے امت نے یہی سمجھا ہے کہ حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عذر سن کر انھیں چھوڑ دیا گیا۔
البتہ اس میں یہ درس ضرور ہے کہ جہاں کفر و اسلام کا مقابلہ ہو اور جہاں اہل ایمان سے صرف ایمان کی وجہ سے لوگ دشمنی کرتے ہوں وہاں کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنی ذاتی غرض یا مصلحت کی خاطر کوئی ایسا کام کرے جس سے اسلام اور اہل اسلام کے مفاد کو نقصان پہنچتا ہو اور کفر اور اہل کفر کے مفادات کو تحفظ ملتا ہو۔
ایسی حرکت ایمان کے منافی ہے کوئی شخص اگر اسلام کی بد خواہی کے جذبے سے بالکل خالی ہو اور بد نیتی سے نہیں بلکہ محض اپنی کسی ذاتی مصلحت کی خاطر ہی یہ کام کرے۔
پھر بھی یہ فعل کسی مومن کے شایان شان نہیں۔
قرآن کریم نے تصریح کی ہے کہ جس نے بھی یہ کام کیا وہ راہ راست سے بھٹک گیا۔
(الممتحنة: 60۔
1)
3۔
بہر حال حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محض اپنے اہل وعیال کو بچانے کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک نہایت اہل جنگی راز سے دشمنان اسلام کو خبر دار کرنے کی کوشش ک تھی جسے اگر بر وقت ناکام نہ کر دیا گیا ہوتا تو فتح مکہ کے موقع پر شاید بہت زیادہ خون خرابہ ہوتا مسلمان کی بہت قیمتی جانیں ضائع ہو جاتیں اور قریش کے بھی بہت سے وہ لوگ مارے جاتے جو بعد میں اسلام کی عظیم خدمات سر انجام دینے والے تھے اور وہ تمام فوائد بھی ضائع ہو جاتے جو مکہ کو پر امن طریقےسے فتح کرنے کی صورت میں حاصل ہوسکتے تھے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4890
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6939
6939. سعد بن عبیدہ سلمی سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابو عبدالرحمن اور حبّان بن عطیہ کا آپس میں اختلاف ہوا۔ اس دوران میں ابو عبدالرحمن نے حبان سے کہا: مجھے معلوم ہے کہ آپ کے ساتھی کو کس چیز نے خون ریزری پر دلیر کیا ہے۔ اس سے مراد حضرت علی ؓ تھے۔ حبان نے کہا: تیرا باپ نہ ہو! ”وہ کیا ہے؟“ ابو عبدالرحمن نے کہا: میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حضرت زبیر اور حضرت ابو مرثد ؓ کو ایک مہم کے لیے بھیجا جبکہ ہم گھوڑوں پر سوار تھے، آپ نے فرمایا: جاؤ اور روضہ حاج پہنچو۔ ابو اسلمہ نے کہا: ابو عوانہ نے اسی طرح (روضہ خاخ کے بجائے روضہ) حاج کہا ہے۔۔ وہاں ایک عورت ہے، اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو اس نے مشرکین مکہ کے نام لکھا ہے۔ تم وہ (خط) میرے پاس لاؤ۔ ہم اپنے گھوڑوں پر سوار ہوکر دوڑ پڑے، چنانچہ ہم نے اسے جگہ پایا جہاں رسول اللہ ﷺ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6939]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابو عبدالرحمٰن کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے عقیدت تھی،اس لیے وہ عثمانی کہلاتے تھے اور حضرت ابن عطیہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کی وجہ سے علوی کہا جاتا تھا۔
(صحیح البخاري، الجھاد، حدیث: 3081)
اس لیے ابو عبدالرحمٰن نے ابن عطیہ سے کہا:
مجھے معلوم ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس قدر خون ریزی پر کیوں جرأت کرتے ہیں۔
انھیں یقین ہے کہ میں اہل جنت میں سے ہوں، اس لیے اجتہادی معاملات میں اگر کوئی خطا ہو گئی تو وہ قیامت کے دن معاف ہو جائے گی۔
حضرت ابو عبدالرحمٰن کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ غلط فہمی ہوئی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اس سلسلے میں انتہائی محتاط تھے، پھر اہل بدر کی مغفرت کا تعلق آخرت سے ہے لیکن دنیا میں اگر حد کا مرتکب ہوا تو اس پر حد ضرور قائم ہو گی جیسا کہ حضرت مسطح رضی اللہ عنہ پر حد قذف لگائی گئی، حالانکہ وہ اہل بدر میں سے تھے۔
(2)
اہل علم کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی اہل بدر میں سے گناہ، مثلاً:
کسی پر تہمت لگانا، قتل کرنا وغیرہ کا مرتکب ہوا تو اس پر حد قصاص واجب ہے۔
(3)
اس حدیث کا عنوان سے اس طرح تعلق ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دوسری روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو منافق قرار دیا اور خائن کہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا دفاع تو کیا لیکن ردعمل کے طور پرحضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کافر یا منافق نہیں کہا کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں ایک معقول تاویل کی بنا پر منافق کہا تھا کیونکہ انھوں نے اہل مکہ کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف ایک اہم راز فاش کیا تھا۔
یہ ایک فوجداری جرم تھا اور ایسا کرنا کفار سے دوستی رکھنے کے مترادف تھا۔
چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک معقول وجہ سے انھیں منافق کہا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مؤاخذہ نہیں کیا بلکہ ان کی فکری غلطی کی اصلاح فرمائی اور حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا دفاع کرتے ہوئے فرمایا:
”جو لوگ غزوۂ بدر میں شریک ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ نےانھیں معاف کر دیا ہے۔
“ حضرت عمر رضی الله عنہ نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کی اجازت اس لیے مانگی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ جو انسان اپنے سربراہ یا اپنی قوم کا راز دشمنوں کے سامنے فاش کرے، اس کی سزا موت ہے۔
ان کے سچا ہونے کی صورت میں بھی ان کا عذر اس قابل نہ تھا کہ وہ اس جرم کی سزا سے بری ہو جائیں۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کے سب قصور معاف کر دیے ہیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے موقف سے دستبردار ہوگئے اور مارے خوشی کے ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6939