الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: اخلاق کے بیان میں
114. بَابُ أَبْغَضِ الأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ:
114. باب: اللہ کو جو نام بہت ہی زیادہ ناپسند ہیں ان کا بیان۔
حدیث نمبر: 6206
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رِوَايَةً قَالَ:" أَخْنَعُ اسْمٍ عِنْدَ اللَّهِ، وَقَالَ سُفْيَانُ غَيْرَ مَرَّةٍ: أَخْنَعُ الْأَسْمَاءِ عِنْدَ اللَّهِ رَجُلٌ تَسَمَّى بِمَلِكِ الْأَمْلَاكِ، قَالَ سُفْيَانُ: يَقُولُ غَيْرُهُ تَفْسِيرُهُ شَاهَانْ شَاهْ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک سب سے بدترین نام۔ اور کبھی سفیان نے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ روایت اس طرح بیان کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بدترین ناموں (جمع کے صیغے کے ساتھ) میں اس کا نام ہو گا جو ملک الاملاک اپنا نام رکھے گا۔ سفیان نے بیان کیا کہ ابوالزناد کے غیر نے کہا کہ اس کا مفہوم ہے شاہان شاہ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 6206]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6206 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6206  
حدیث حاشیہ:
فی الحقیقت شہنشاہ پروردگار ہے بندے شہنشاہ نہیں ہو سکتے جو لوگ اپنے کو شہنشاہ کہلاتے ہیں اللہ کے نزدیک وہ نہایت ہی حقیر اور گندے بندے ہیں، اسی لئے آج کے جمہوری دور میں اب کوئی شہنشاہ نہیں رہا۔
اللہ نے سب کو نابود کر دیا۔
آج سب ایک سطح پر ہیں مگر آج کل ان کی جگہ ممبران پارلیمنٹ واسمبلی نے لے رکھی ہے۔
إلا ما شاءاللہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6206   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6206  
حدیث حاشیہ:
(1)
اصل ملک الاملاک، یعنی شاہان شاہ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہے اور جو لوگ خود کو شہنشاہ کہلاتے ہیں وہ اللہ کے نزدیک انتہائی حقیر ہیں۔
اسی طرح اس نام کا ہم معنی نام بھی حرام ہے جیسے کسی کا نام احکم الحاکمین، سلطان السلاطین یا امیر الامراء رکھ دیا جائے۔
(2)
علمائے کرام نے مندرجہ بالا ترکیب کے اعتبار سے ''قاضی القضاۃ'' کہنے کہلانے کو بھی ناجائز کہا ہے اگرچہ کچھ اہل علم اس کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6206