ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے جعفر بن عون نے بیان کیا، کہا ہم ابوالعمیس (عتبہ بن عبداللہ) نے بیان کیا، ان سے عون بن ابی جحیفہ نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی اور ابودرداء رضی اللہ عنہما کو بھائی بھائی بنا دیا۔ ایک مرتبہ سلمان، ابودرداء رضی اللہ عنہما کی ملاقات کے لیے تشریف لائے اور ام الدرداء رضی اللہ عنہا کو بڑی خستہ حالت میں دیکھا اور پوچھا کیا حال ہے؟ وہ بولیں تمہارے بھائی ابودرداء کو دنیا سے کوئی سروکار نہیں۔ پھر ابودرداء تشریف لائے تو سلمان رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے کھانا پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کھائیے، میں روزے سے ہوں۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بولے کہ میں اس وقت تک نہیں کھاؤں گا۔ جب تک آپ بھی نہ کھائیں۔ چنانچہ ابودرداء نے بھی کھایا رات ہوئی تو ابودرداء رضی اللہ عنہ نماز پڑھنے کی تیاری کرنے لگے۔ سلمان نے کہا کہ سو جایئے، پھر جب آخر رات ہوئی تو ابودرداء نے کہا اب اٹھئیے، بیان کیا کہ پھر دونوں نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بلاشبہ تمہارے رب کا تم پر حق ہے اور تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، پس سارے حق داروں کے حقوق ادا کرو۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلمان نے سچ کہا ہے۔ ابوجحیفہ کا نام وہب السوائی ہے، جسے وہب الخیر بھی کہتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 6139]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6139
حدیث حاشیہ: عورت بے چاری میلی کچیلی بیٹھی ہوئی تھی، حضرت سلمان کے پوچھنے پر اسے کہنا پڑا کہ میرے خاوند جب مجھ سے مخاطب ہی نہیں ہوتے تو میں بناؤ سنگار کر کے کیا کروں۔ آخر حضرت سلمان کے سمجھانے سے ابو درداء رضی اللہ عنہ نے اپنی حالت کو بدلا۔ روایت میں حضرت سلمان کے لئے کھانا تیار کرنے کا ذکر ہے باب سے یہی مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6139
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6139
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6139 کا باب: «بَابُ صُنْعِ الطَّعَامِ وَالتَّكَلُّفِ لِلضَّيْفِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم فرمایا ہے، اس کے دو اجزاء ہیں، پہلا جزء «صنع الطعام» مہمان کے لیے کھانا تیار کرنا ہے، اور دوسرا جزء «والتكلف» یعنی پرتکلف کھانا تیار کرنا ہے، مگر پہلے جزء سے مناسبت واضح ہے، جبکہ دوسرے جزء سے مناسبت مشکل۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں: «و وقع فى التكلف للضيف حديث سلمان ”نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نتكلف للضيف“ أخرجه أحمد و الحاكم، و فيه قصة سلمان مع ضيفه حيث طلب منه ما قدم له فرهن مطهرته بسبب ذالك، ثم قال الرجل لما فرغ الحمد لله الذى قنعنا بما رزقنا، فقال له سلمان: لو قنعت ما كانت مطهر فى مرهونة.»(1) ”مہمان کے لیے تکلف کرنا، حدیث سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ میں ہے کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے مہمان کے لیے تکلف برتنے سے۔ اسے احمد اور حاکم نے تخریج فرمایا ہے، اس میں سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کے ایک مہمان کا قصہ بھی ہے جس نے ان سے پرتکلف کھانا طلب کیا اور انہیں اس کے لیے مطہرہ (برتن، ابریق، مسطل، رکوۃ وغیرہ [القاموس الوافي، ص: 1049]) رہن رکھنا پڑا، پھر فراغت کے بعد اس نے کہا: «الحمد لله الذى قنعنا بما رزقنا»(یعنی اللہ تعالی کا شکر ہے، جس نے ہمیں قناعت کی تو فیق بخشی) سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے سن کر کہا کہ اگر تم قناعت کرنے والے ہوتے تو مجھے اپنا مطہرہ رہن نہ رکھنا پڑتا۔“ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے مناسبت کا پہلو اس طرح سے واضح ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کے دوسرے جزء کی مناسبت کے لیے سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ ہی کی دوسری حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں تکلف کرنے سے روکا گیا ہے، اور مزید یہ بھی آپ رحمہ اللہ نے واضح کیا کہ استطاعت کی صورت میں تو تکلف اور اہتمام کرنے کا جواز ہے، مگر عدم استطاعت کی صورت میں تکلف درست نہیں، ممانعت والی حدیث عدم استطاعت والی صورت پرمحمول ہے۔ اور جہاں تک تعلق ہے تحت الباب والی حدیث کا تو اس کی بھی مناسبت شارحین نے دی ہے، صاحب لامع الدراری رقمطرار ہیں: «و لعله قصد إثبات الجزء الثاني بقوله: كل فاني صائم، فانهم لما كانت عادتهم الصوم و التبذل، و الظاهر أنهم لم يكونوا يصنعون طعامًا بالنهار و كانوا يكتفون بطعام الليل، فكان صنع الطعام الجديد له تكلف.»(1) ”یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے جو ترجمۃ الباب قائم فرمایا ہے، اس کا دوسرا جزء حدیث میں واقع «كل فاني صائم» سے ثابت کرنا چاہ رہے ہیں، سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ اور ان کے گھر والوں کا معمول تھا روزہ رکھنا، لہذا اس لیے ظاہر یہی ہے کہ وہ لوگ دن کو کھانا نہیں بناتے ہوں گے، صرف رات کو کھانے کا بندوبست کرتے ہوں گے، تو اس موقع پر ان کا دن کے وقت بندوبست کرنا کھانے کا مہمان کے لیے بطور تکلف تھا، اسی طرح ترجمۃ الباب کا دوسرا جزء «والتكلف للضيف» اس سے ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ترجمۃ الباب کے دوسرے جزء کو حدیث کے لفظ «مأكل» سے ثابت کیا جائے، سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کی عادت روزہ رکھنے کی تھی لیکن انہوں نے مہمان کی خاطر افطار کیا، یہ افطار کرنا مہمان کے لیے بطور تکلف تھا۔“
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6139
حدیث حاشیہ: امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاطعمۃ میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا تھا: (باب الرجل يتكلف الطعام لإخوانه) ”آدمی اپنے بھائیوں کے لیے پرتکلف کھانا تیار کرتا ہے۔ “(صحیح البخاري، الأطعمة، باب: 34) وہاں بھی یہ مسئلہ بیان کیا تھا کہ انسان کو اپنے مہمان کے لیے پرتکلف کھانا تیار کرنا چاہیے۔ اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے لیے خود کھانا تیار کیا تاکہ ان کی میزبانی میں کوئی کمی نہ رہ جائے کیونکہ مہمانوں کے لیے پرتکلف کھانا تیار کرنا حضرات انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہے، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مہمانوں کے لیے موٹا تازہ بچھڑا ذبح کیا، پھر خود ہی بھون کر لائے اور مہمانوں کو پیش کیا جیسا کہ قرآن کریم میں صراحت ہے لیکن یہ تکلف اپنی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہمت سے بڑھ کر تکلف کرنے کی ممانعت ہے جیسا کہ ایک روایت ہے، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے اپنے مہمانوں سے فرمایا: اگر یہ بات نہ ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان کے لیے تکلف کرنے سے منع کیا ہے تو میں تمہارے لیے ضرور تکلف کرتا۔ (مسند أحمد: 5/441) بہرحال اعتدال میں رہتے ہوئے میزبانی کا فریضہ ادا کرنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6139