ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس شخص نے بھی اپنے کسی بھائی کو کہا کہ اے کافر! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہو گیا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 6104]
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6104
� لغوی توضیح: «بَــاءَ» لوٹا۔ یعنی جسے کافر کہا گیا ہے اگر وہ کافر نہیں تو کہنے والا کافر بن جائے گا۔ اہل علم، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان کو زجر و توبیخ پر محمول کرتے ہیں۔ نیز اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی بات کہنا کس قدر بڑا گناہ ہے، لہٰذا اگر کوئی ایسی بات کہے تو اس سے لازماً توبہ کرے۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 39
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6104
حدیث حاشیہ: (1) کسی کو کافر کہنا یا اسے کافر قرار دینا ''تکفیر'' کہلاتا ہے۔ اہل حدیث حضرات نے مسئلہ تکفیر میں بڑی احتیاط سے کام لیا ہے کیونکہ یہ مسئلہ بہت نزاکت کا حامل ہے۔ یہ ایک دو دھاری تلوار ہے جس نے ایک کو ضرور کاٹ دینا ہے۔ جس انسان کو کافر کہا گیا ہے اگر وہ فی الحقیقت کافر نہیں تو یہ کفر، کہنے والے پر لوٹ آئے گا، یعنی کہنے والا کافر ہو جائے گا لیکن یہ اس صورت میں ہو گا جب کہنے والا کسی قسم کی تاویل کے بغیر اسے کافر کہتا ہے۔ اگر وہ دوسرے کو کافر کہنے کے لیے اپنے پاس کوئی معقول وجہ رکھتا ہے تو پھر کسی کو کافر کہنے والا خود کافر نہیں ہو گا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کے اطلاق کو ''معقول تاویل'' کے ساتھ مقید کیا ہے۔ (3) ہمارے اسلاف اس سلسلے میں بڑے محتاط تھے۔ وہ کسی کلمہ گو کو کافر نہیں کہتے تھے۔ انہوں نے مسئلہ تکفیر کے کچھ قواعد و ضوابط مقرر کیے ہیں، اس کے اسباب و شرائط سے ہمیں آگاہ کیا ہے اور موانع کی بھی نشاندہی کی ہے۔ جب تک کسی میں ایسی شرائط نہ پائی جائیں کہ اسے کافر قرار دیا جا سکے اور وہاں کوئی مانع بھی نہ ہو تو قطعی طور پر کسی کو کافر کہنے سے گریز کرنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6104
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 481
´اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہنا؟` «. . . 295- وبه: أن رسول الله قال: ”أيما رجل قال لأخيه: كافر، فقد باء بها أحدهما.“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آدمی اپنے (مسلمان) بھائی کو کافر کہتا ہے تو دونوں میں سے ایک کی طرف یہ (فتویٰ) لوٹ جاتا ہے یعنی دونوں میں سے ایک کافر ہوتا ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 481]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 6104، من حديث مالك، ومسلم 20، من حديث عبدالله بن ديناربه] تفقه ➊ صحیح العقیدہ مسلمان بھائی کی تکفیر کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ ➋ تکفیر اور تکفیریوں سے کلی اجتناب کرنا چاہئے۔ یہ لوگ کفار ومشرکین کو چھوڑ کر صحیح العقیدہ مسلمانوں کی تکفیر کرتے رہتے ہیں۔ ➌ جو شخص واقعی کافر، مشرک یا گمراہ ہے تو اس سے اعلانِ برأت کرنا ایمان کی نشانی ہے اور الولاء والبراء کا یہی تقاضا ہے۔ ➍ شرک وکفر کے علاوہ کسی گناہ کے ارتکاب سے کوئی بھی کافر نہیں ہوتا اِلا یہ کہ وہ اسے حلال سمجھے۔ ➎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کا ذکر کیا جن میں سے ایک قرآن کا قاری اور اسلام کا دفاع کرنے والا تھا، اُس نے اپنے پڑوسی پر شرک کا فتویٰ لگا کر تلوار لے کر اس پر حملہ کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتویٰ لگانے والے کو شرک کے زیادہ قریب قرار دیا۔ دیکھئے [صحيح ابن حبان الاحسان: 81 وسنده حسن وحسنه البزار فى البحر الزخار 7/220، 221 ح2793 والهيثمي فى مجمع الزوائد 1/187، 188] ➏ مشہور تابعی عبیدہ السلمانی رحمہ اللہ نے کہا: ہر وہ چیز جس میں اللہ کی نافرمانی کی جائے کبیرہ گناہ ہے۔ [شعب الايمان للبيهقي 1/273 ح293، وسنده صحيح] ➐ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہر وہ چیز جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے، کبیرہ گناہ ہے۔ [شعب الايمان للبيهقي: 7150 وسنده صحيح، نيز ديكهئے شعب الايمان: 292 وسنده حسن]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 295
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4687
´ایمان کی کمی اور زیادتی کے دلائل کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مسلمان کسی مسلمان کو کافر قرار دے تو اگر وہ کافر ہے (تو کوئی بات نہیں) ورنہ وہ (قائل) خود کافر ہو جائے گا۔“[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4687]
فوائد ومسائل: زبان کا بول بے کار نہیں جاتا، کسی مسلمان کو بغیر کسی واضح شرعی دلیل کے کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر مخاطب فی الواقع اس کا مستحق نہ ہو، تو کہنے والا ضرور اس سے متاثر ہوتا ہے۔ مگر یہ کفر اکبر سے کم درجے کا ہے۔ کبیرہ گناہ ہے جس کے مرتکب کو اسی معنی میں کافر قرار دیا گیا ہے جس معنی میں اوپر کی حدیث میں کہا گیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4687
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2637
´اپنے مسلمان بھائی کو کافر ٹھہرانے والا کیسا ہے؟` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کسی نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک نے (گویا کہ) اپنے کافر ہونے کا اقرار کر لیا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2637]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: کیوں کہ کسی مومن کو کافر، کافر ہی کہہ سکتا ہے، ایک مومن دوسرے مومن کوکافر نہیں کہہ سکتا، اگر کہتا ہے تو جس کو کہا ہے وہ حقیقت میں اگر کافر کہلانے کا مستحق ہے تو وہ کافر ہے، ورنہ کہنے والا اس کے سزا میں کفر کے وبال میں مبتلا ہو گا۔ اس لیے کوئی بات سوچ سمجھ کر اور زبان کو قابو میں رکھ کر ہی کہنی چاہیے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2637
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 216
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے اپنے بھائی سے کہا: اے کافر! تو کفر دونوں میں سے ایک طرف ضرور پلٹے گا، اگر مخاطب واقعی کافر ہے تو ٹھیک ہوگا (ورنہ کہنے والا کافر ہوگا)۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:216]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: کسی انسان کو اس کی بد عملی یا بد اخلاقی کی بنا پر کافر قرار دینا سنگین جزم ہے۔ انسان کو اپنی زبان پر قابو رکھنا چاہیے، اور بلا دریغ ”کفر کے فتوے “ جاری نہیں کرنے چاہئیں۔ ہاں یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ اس کے اعمال کافرانہ یا منافقانہ ہیں یا وہ شرکیہ افعال کا مرتکب ہے، کیونکہ ممکن ہے وہ جہالت کی وجہ سے یا غلط فہمی، بلکہ بد فہمی کی وجہ سے یا کسی غلط یا صحیح تاویل کی وجہ سے، اخلاص وللہیت کے ساتھ اس عمل کو شرک یا کفر کا باعث نہ سمجھتا ہو، لیکن اگر کوئی انسان ضروریات دین کا انکار کرے یا قطعی اور یقینی دلائل سے ثابت، نا جائز کام کو جائز قرار دے اور لوگوں کو بھی اس کی دعوت دے، تو پھر ان الفاظ کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ بلا وجہ کسی کی تکفیر کرنے والا، اپنی تکفیر کی زد میں خود ہی آجاتا ہے اور اپنے آپ کو کافر قرار دے بیٹھتا ہے۔