ہم سے محمد بن یحییٰ ذہلی (یا محمد بن بشار) اور احمد بن سعید دارمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم کو علی بن مبارک نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب کوئی شخص اپنے کسی بھائی کو کہتا ہے کہ اے کافر! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہو گیا۔ اور عکرمہ بن عمار نے یحییٰ سے بیان کیا کہ ان سے عبداللہ بن یزید نے کہا، انہوں نے ابوسلمہ سے سنا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 6103]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6103
حدیث حاشیہ: جس کو کافر کہا وہ واقعہ میں کافر ہے تب تو وہ کافر ہے اور جب وہ کافر نہیں تو کہنے والا کافر ہو گیا۔ اسی لئے اہلحدیث نے تکفیر میں بڑی احتیاط برتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم کسی اہل قبلہ کو کافر نہیں کہتے لیکن متاخرین فقہاء اپنی کتابوں میں ادنیٰ ادنیٰ باتوں پر اپنے مخالفین کی تکفیر کرتے ہیں، صاحب در مختار نے بڑی جرات سے یہ فتویٰ درج کر دیا۔ فلعنة ربنا أعداد رمل علی من رد قول أبي حنیفة یعنی جو حضرت امام ابو حنیفہ کے کسی قول کو رد کر دے اس پر اتنی لعنت ہو جتنے دنیا میں ذرات ہیں۔ کہئے اس اصول کے موافق تو سارے ائمہ دین ملعون ٹھہرے جنہوں نے بہت سے مسائل میں حضرت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو رد کیا ہے۔ خود حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں نے کتنے ہی مسائل میں حضرت امام سے اختلاف کیا ہے تو کیا صاحب درمختار کے نزدیک وہ بھی سب ملعون اور مطرود تھے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو ایسے لوگوں نے پیغمبر سمجھ لیا ہے یا آیت اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ کے تحت ان کو خدا بنا لیا ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ایک عالم دین تھے، ان سے کتنے ہی مسائل میں خطا ہوئی وہ معصوم نہیں تھے۔ اس حدیث سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہئے جو بلا تحقیق محض گمان کی بنا پر مسلمانوں کو مشرک یا کافر کہہ دیتے ہیں۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6103