ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، ان سے حمید نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو لیلۃ القدر کی بشارت دینے کے لیے حجرے سے باہر تشریف لائے، لیکن مسلمانوں کے دو آدمی اس وقت آپس میں کسی بات پر لڑنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں (لیلۃ القدر کے متعلق) بتانے کے لیے نکلا تھا لیکن فلاں فلاں آپس میں لڑنے لگے اور (میرے علم سے) وہ اٹھا لی گئی۔ ممکن ہے کہ یہی تمہارے لیے اچھا ہو۔ اب تم اسے 29 رمضان اور 27 رمضان اور 25 رمضان کی راتوں میں تلاش کرو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 6049]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6049
حدیث حاشیہ: ان کے علاوہ دیگر طاق راتوں میں کبھی کبھی لیلۃ القدر کا امکان ہو سکتا ہے جیسا کہ دوسری روایات میں آیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6049
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6049
حدیث حاشیہ: (1) مسلمانوں میں سے جھگڑنے والے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن ابی حدرد رضی اللہ عنہ تھے، (فتح الباري: 574/10) ان کا جھگڑا قرض لینے دینے کے متعلق تھا۔ شاید لڑتے وقت گالی گلوچ تک نوبت پہنچ گئی ہو۔ اس کی نحوست سے شب قدر کی تعیین کو اٹھا لیا گیا، شب قدر کو نہیں اٹھایا گیا تھا۔ (2) بہرحال لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ اس قدر باعث نحوست ہے کہ انسان ان کی وجہ سے بڑی سے بڑی سعادت سے محروم ہو سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے گالی گلوچ کی نحوست بیان کرنے کے لیے یہ حدیث بیان کی ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6049
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 49
´شب قدر رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک پوشیدہ رات ہے ` «. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يُخْبِرُ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَتَلَاحَى رَجُلَانِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ:" إِنِّي خَرَجْتُ لِأُخْبِرَكُمْ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ، وَإِنَّهُ تَلَاحَى فُلَانٌ وَفُلَانٌ، فَرُفِعَتْ وَعَسَى أَنْ يَكُونَ خَيْرًا لَكُمُ، الْتَمِسُوهَا فِي السَّبْعِ وَالتِّسْعِ وَالْخَمْسِ . . .» ”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے نکلے، لوگوں کو شب قدر بتانا چاہتے تھے (وہ کون سی رات ہے) اتنے میں دو مسلمان آپس میں لڑ پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں تو اس لیے باہر نکلا تھا کہ تم کو شب قدر بتلاؤں اور فلاں فلاں آدمی لڑ پڑے تو وہ میرے دل سے اٹھا لی گئی اور شاید اسی میں کچھ تمہاری بہتری ہو۔ (تو اب ایسا کرو کہ) شب قدر کو رمضان کی ستائیسویں، انتیسویں و پچیسویں رات میں ڈھونڈا کرو . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 49]
� تشریح: اس حدیث سے بھی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود مرجیہ کی تردید کرتے ہوئے یہ بتلانا ہے کہ نیک اعمال سے ایمان بڑھتا ہے اور گناہوں سے گھٹتا ہے۔
شب قدر کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک پوشیدہ رات ہے اور وہ ہر سال ان تواریخ میں گھومتی رہتی ہے، جو لوگ شب قدر کو ستائیسویں شب کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں، ان کا خیال صحیح نہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ: حدیث 45 میں اور اسی طرح بہت سی مرویات میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام بار بار آتا ہے لہٰذا ان کے مختصر حالات جاننے کے لیے یہ کافی ہے کہ آپ علم حدیث کے سب سے بڑے حافظ اور اساطین میں شمار ہیں، صاحب فتویٰ ائمہ کی جماعت میں بلند مرتبہ رکھتے تھے۔ علمی شوق میں سارا وقت صحبت نبوی میں گزارتے تھے دعائیں بھی ازدیاد علم ہی کی مانگتے تھے، نشر حدیث میں بھی اتنے ہی سرگرم تھے، مرویات کی تعداد 5374 تک پہنچی ہوئی ہے۔ جن میں 325 متفق علیہ ہیں، فقہ میں بھی کامل دستگاہ حاصل تھی۔ عربی کے علاوہ فارسی و عبرانی بھی جانتے تھے، مسائل توارۃ سے بھی پوری واقفیت تھی۔
خشیت ربانی کا یہ عالم تھا کہ ”احتساب قیامت“ کے ذکر پر چیخ مار کر بےہوش ہو جاتے تھے، ایک مرتبہ مخصوص طور پر یہ حدیث سنائی جس کے دوران میں کئی مرتبہ بےہوش ہوئے۔ ❀ ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ بروز قیامت سب سے پہلے عالم قرآن، شہید اور دولت مند فیصلہ کے لیے طلب ہوں گے، اول الذکر سے پوچھا جائے گا کہ میں نے تجھے علم قرآن عطا کیا، اس پر تو نے عمل بھی کیا؟ جواب دے گا شبانہ روز تلاوت کرتا رہتا تھا۔ فرمائے گا، جھوٹ بولتا ہے، تو اس لیے تلاوت کرتا تھا کہ قاری کا خطاب مل جائے، مل گیا۔ دولت مند سے سوال ہو گا کہ میں نے تجھے دولت مند بنا کر دوسروں کی دست نگری سے بے نیاز نہیں کیا تھا؟ اس کا بدلا کیا دیا؟ عرض کرے گا صلہ رحمی کرتا تھا، صدقہ دیتا تھا۔ ارشاد ہو گا، جھوٹ بولتا ہے مقصد تو یہ تھا کہ سخی مشہور ہو جائے، وہ ہو گیا۔ شہید سے سوال ہوگا۔ وہ کہے گا کہ الٰہ العالمین میں تو تیرے حکم جہاد ہی کے تحت لڑا، یہاں تک کہ تیری راہ میں مارا گیا۔ حکم ہو گا غلط ہے، تیری نیت تو یہ تھی کہ دنیا میں شجاع و جری مشہور ہو جائے، وہ مقصد حاصل ہو گیا۔ ہمارے لیے کیا کیا؟ یہ حدیث بیان کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے زانو پر ہاتھ مار کر ارشاد فرمایا کہ سب سے پہلے انہیں تینوں سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔“[ترمذی، ابواب الزہد]
شوق عبادت، گھر میں ایک بیوی اور ایک خادم تھا، تینوں باری باری تہائی تہائی شب مصروف عبادت رہتے تھے بعض اوقات پوری پوری راتیں نماز میں گزار دیتے۔ آغاز ماہ میں تین روزے التزام کے ساتھ رکھتے، ایک روز تکبیر کی آواز سن کر ایک صاحب نے پوچھا تو فرمایا کہ اللہ کا شکر ادا کر رہا ہوں کہ ایک دن تھا کہ میں برہ بنت غزوان کے پاس محض روٹی پر ملازم تھا، اس کے بعد وہ دن بھی اللہ نے دکھایا کہ وہ میرے عقد میں آ گئی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بےحد محبت تھی، اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی سے پابند تھے، اہل بیت اطہار سے والہانہ محبت رکھتے تھے اور جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتے تو آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ اطاعت والدین کا یہ کتنا شاندار مظاہرہ تھا کہ شوق عبادت کے باوجود محض ماں کی تنہائی کے خیال سے ان کی زندگی میں حج نہیں کیا۔ [مسلم، جلد: 2]
قابل فخر خصوصیت یہ ہے کہ ویسے تو آپ کے اخلاق بہت بلند تھے اور حق گوئی کے جوش میں بڑے سے بڑے شخص کو فوراً پیچھے روک دیتے تھے، چنانچہ جب مدینہ میں ہنڈی یا چک کا رواج ہوا ہے تو آپ نے مروان سے جا کر کہا کہ تو نے «ربا» حلال کر دیا، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اشیائے خوردنی کی بیع اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ بائع اسے ناپ تول نہ لے، اسی طرح اس کے یہاں تصاویر آویزاں دیکھ کر اسے ٹوکا اور اسے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ ایک دفعہ مروان کی موجودگی میں فرمایاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح فرمایا ہے کہ میری امت کی ہلاکت قریش کے لونڈوں کے ہاتھوں میں ہو گی۔
لیکن سب سے نمایاں چیز یہ تھی کہ منصب امارت پر پہنچ کر اپنے فقر کو نہ بھولے۔ یا تو یہ حالت تھی کہ روٹی کے لیے گھوڑے کے پیچھے دوڑتے، مسلسل فاقوں سے غش پہ غش آتے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ اصحاب صفہ میں تھے کسی سے سوال نہ کرتے، لکڑیاں جنگل سے کاٹ لاتے، اس سے بھی کام نہ چلتا، رہگزر پر بیٹھ جاتے کہ کوئی کھلانے کے لیے لے جائے یا یہ عالم ہوا کہ گورنری پر پہنچ گئے، سب کچھ حاصل ہو گیا، لیکن فقیرانہ سادگی برابر قائم رکھی، ویسے اچھے سے اچھا پہنا، کتاں کے بنے ہوئے کپڑے پہنے اور ایک سے ناک صاف کر کے کہا، واہ واہ! ابوہریرہ آج تو کتاں سے ناک صاف کرتے ہو، حالانکہ کل شدت فاقہ سے مسجد نبوی میں غش کھا کر گر پڑا کرتے تھے۔ شہر سے نکلتے تو سواری میں گدھا ہوتا، جس پر معمولی نمدہ کسا ہوتا۔ چھال کی رسی کی لگام ہوتی۔ جب سامنے کوئی آ جاتا تو مزاحاً خود کہتے، راستہ چھوڑو امیرکی سواری آ رہی ہے۔
بڑے مہمان نواز اور سیر چشم تھے، اللہ تعالیٰ آج کسی کو معمولی فارغ البالی بھی عطا کرتا ہے تو غرور سے حالت اور ہو جاتی ہے مگر اللہ نے آپ کو زمین سے اٹھاکر عرش پر بٹھا دیا، لیکن سادگی کا وہی عالم رہا۔ (رضی اللہ عنہ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 49
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 49
49. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ شب قدر بتانے کے لیے (اپنے حجرے سے) نکلے۔ اتنے میں دو مسلمان آپس میں جھگڑ پڑے۔ آپ نے فرمایا: ”میں تو اس لیے باہر نکلا تھا کہ تمہیں شب قدر بتاؤں، مگر فلاں فلاں آدمی جھگڑ پڑے، اس لیے وہ (میرے دل سے) اٹھا لی گئی اور شاید یہی تمہارے حق میں مفید ہو۔ اب تم شب قدر کو رمضان کی ستائیسویں، انتیسویں اور پچیسویں رات میں تلاش کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:49]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے بھی حضرت امام بخاری کا مقصود مرجیہ کی تردید کرتے ہوئے یہ بتلانا ہے کہ نیک اعمال سے ایمان بڑھتا ہے اور گناہوں سے گھٹتا ہے۔ شب قدر کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا: ” وہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک پوشیدہ رات ہے اور وہ ہرسال ان تواریخ میں گھومتی رہتی ہے، جو لوگ شب قدر کو ستائیسویں شب کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں، ان کا خیال صحیح نہیں۔ “ حضرت ابوہریرہ ؓ: حدیث 45 میں اور اسی طرح بہت سی مرویات میں حضرت ابوہریرہ ؓ کا نام باربار آتا ہے لہٰذا ان کے مختصر حالات جاننے کے لیے یہ کافی ہے کہ آپ علم حدیث کے سب سے بڑے حافظ اور اساطین میں شمار ہیں، صاحب فتویٰ ائمہ کی جماعت میں بلند مرتبہ رکھتے تھے۔ علمی شوق میں سارا وقت صحبت نبویﷺ میں گزارتے تھے دعائیں بھی ازدیاد علم ہی کی مانگتے تھے، نشرحدیث میں بھی اتنے ہی سرگرم تھے، مرویات کی تعداد5374 تک پہنچی ہوئی ہے۔ جن میں 325 متفق علیہ ہیں، فقہ میں بھی کامل دستگاہ حاصل تھی۔ عربی کے علاوہ فارسی وعبرانی بھی جانتے تھے، مسائل توارۃ سے بھی پوری واقفیت تھی۔ خشیت ربانی کایہ عالم تھا کہ ”احتساب قیامت“ کے ذکر پر چیخ مارکر بے ہوش ہوجاتے تھے، ایک مرتبہ مخصوص طور پر یہ حدیث سنائی جس کے دوران میں کئی مرتبہ بے ہوش ہوئے۔ ”حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”بروز قیامت سب سے پہلے عالم قرآن، شہید اور دولت مند فیصلہ کے لیے طلب ہوں گے، اول الذکر سے پوچھا جائے گا کہ میں نے تجھے علم قرآن عطا کیا، اس پر تونے عمل بھی کیا؟ جواب دے گا شبانہ روز تلاوت کرتا رہتا تھا۔ فرمائے گا، جھوٹ بولتا ہے، تواس لیے تلاوت کرتا تھا کہ قاری کا خطاب مل جائے، مل گیا۔ دولت مند سے سوال ہوگا کہ میں نے تجھے دولت مند بنا کر دوسروں کی دست نگری سے بے نیاز نہیں کیا تھا؟ اس کا بدلا کیا دیا؟ عرض کرے گا صلہ رحمی کرتا تھا، صدقہ دیتا تھا۔ ارشادہوگا، جھوٹ بولتا ہے مقصد تو یہ تھا کہ سخی مشہور ہوجائے، وہ ہوگیا۔ شہید سے سوال ہوگا۔ وہ کہے گا کہ الٰہ العالمین میں توتیرے حکم جہاد ہی کے تحت لڑا، یہاں تک کہ تیری راہ میں مارا گیا۔ حکم ہوگا غلط ہے، تیری نیت تو یہ تھی کہ دنیا میں شجاع وجری مشہور ہو جائے، وہ مقصد حاصل ہوگیا۔ ہمارے لیے کیا کیا؟ یہ حدیث بیان کرکے حضور ﷺنے میرے زانو پر ہاتھ مارکر ارشاد فرمایا: سب سے پہلے انہیں تینوں سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔ “(ترمذی، ابواب الزہد) عبادت سے عشق تھا، گھر میں ایک بیوی اور ایک خادم تھا، تینوں باری باری تہائی تہائی شب مصروف عبادت رہتے تھے بعض اوقات پوری پوری راتیں نماز میں گذار دیتے۔ آغاز ماہ میں تین روزے التزام کے ساتھ رکھتے، ایک روز تکبیر کی آواز سن کر ایک صاحب نے پوچھا توفرمایا کہ خدا کا شکر ادا کررہاہوں کہ ایک دن تھا کہ میں برہ بنت غزوان کے پاس محض روٹی پر ملازم تھا، اس کے بعد وہ دن بھی اللہ نے دکھایا کہ وہ میرے عقد میں آگئی۔ حضور ﷺ سے بے حد محبت تھی، اسوۂ رسول ﷺ پر سختی سے پابند تھے، اہل بیت اطہار سے والہانہ محبت رکھتے تھے اور جب حضرت حسن ؓ کو دیکھتے توآبدیدہ ہوجاتے تھے۔ اطاعت والدین کا یہ کتنا شان دار مظاہرہ تھا کہ شوق عبادت کے باوجود محض ماں کی تنہائی کے خیال سے ان کی زندگی میں حج نہیں کیا۔ (مسلم، جلد: 2) قابل فخر خصوصیت یہ ہے کہ ویسے تو آپ کے اخلاق بہت بلند تھے اور حق گوئی کے جوش میں بڑے سے بڑے شخص کو فوراً پیچھے روک دیتے تھے، چنانچہ جب مدینہ میں ہنڈی یا چک کا رواج ہوا ہے تو آپ نے مروان سے جاکر کہا کہ تونے ربا حلال کردیا، کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے: ” اشیائے خوردنی کی بیع اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ بائع اسے ناپ تول نہ لے، اسی طرح اس کے یہاں تصاویر آویزاں دیکھ کر اسے ٹوکا اور اسے سرتسلیم خم کرنا پڑا۔ “ ایک دفعہ مروان کی موجودگی میں فرمایا: حضور ﷺ نے صحیح فرمایا ہے: ”میری امت کی ہلاکت قریش کے لونڈوں کے ہاتھوں میں ہوگی۔ “ لیکن سب سے نمایاں چیز یہ تھی کہ منصب امارت پر پہنچ کر اپنے فقر کو نہ بھولے۔ یاتویہ حالت تھی کہ روٹی کے لیے گھوڑے کے پیچھے دوڑتے، مسلسل فاقوں سے غش پہ غش آتے، حضور ﷺ کے سواکوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ اصحاب صفہ میں تھے کسی سے سوال نہ کرتے، لکڑیاں جنگل سے کاٹ لاتے، اس سے بھی کام نہ چلتا، رہ گزر پر بیٹھ جاتے کہ کوئی کھلانے کے لیے لے جائے یایہ عالم ہوا کہ گورنری پر پہنچ گئے، سب کچھ حاصل ہوگیا، لیکن فقیرانہ سادگی برابر قائم رکھی، ویسے اچھے سے اچھا پہنا، کتاں کے بنے ہوئے کپڑے پہنے اور ایک سے ناک صاف کرکے کہا، واہ واہ! ابوہریرہؓ آج تو کتاں سے ناک صاف کرتے ہو، حالانکہ کل شدت فاقہ سے مسجد نبوی میں غش کھاکر گر پڑا کرتے تھے۔ شہر سے نکلتے توسواری میں گدھا ہوتا، جس پر معمولی نمدہ کسا ہوتا۔ چھال کی رسی کی لگام ہوتی۔ جب سامنے کوئی آ جاتا تو مزاحا خود کہتے، راستہ چھوڑو امیرکی سواری آرہی ہے۔ بڑے مہمان نواز اور سیرچشم تھے، اللہ تعالیٰ آج کسی کو معمولی فارغ البالی بھی عطا کرتا ہے توغرور سے حالت اور ہوجاتی ہے مگر خدا نے آپ کو زمین سے اٹھاکر عرش پر بٹھادیا، لیکن سادگی کا وہی عالم رہا۔ (رضی اللہ عنہ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 49
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 270
´لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے` «. . . خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رمضان فقال: ”إني اريت هذه الليلة حتى تلاحى رجلان فرفعت، فالتمسوها فى التاسعة والسابعة والخامسة . . .» ”. . . روایت ہے کہ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو فرمایا: ”مجھے آج رات (لیلتہ القدر) دکھائی گئی تھی حتیٰ کہ دو آدمی جھگڑ پڑے تو اسے اٹھا لیا گیا لہٰذا اسے نویں، ساتویں اور پانچویں (راتوں)میں تلاش کرو . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 270]
تخریج الحدیث: [وأخرجه النسائي فى السنن الكبريٰ 3396، من حديث مالك به ورواه البخاري 2023، من حديث حميد الطّويل: حدثني أنس عن عبادة بن الصامت به وسنده صحيح]
تفقه: ➊ لیلۃ القدر کے بارے میں راجح یہی ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔ یہ رات ہر رمضان میں ہوتی ہے۔ ➋ مسلمانوں کا آپس میں جھگڑنا سخت نقصان کا باعث ہے اور دنیا وآخرت کے خسارے کا بھی امکان ہے اِلا یہ کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے۔ ➌ حافظ ابن عبدالبر نے کہا: اس باب میں آثار اس پر دلالت کرتے ہیں کہ اس رات «ليلة القدر» کی کوئی خاص علامت نہیں ہوتی جس سے اس کی حقیقی معرفت کا یقین ہو جیسا کہ عوام کہتے ہیں۔ [التمهيد 2/212] ● لیکن یاد رہے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ اس رات کے بعد والی صبح میں سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ اُس کی شعاعیں نہیں ہوتیں۔ ➍ عوام میں جو مشہور ہے کہ لیلۃ القدر کو درخت سجدہ کرتے ہیں۔ وغیرہ، ان کی کوئی اصل صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 148
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:49
49. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ شب قدر بتانے کے لیے (اپنے حجرے سے) نکلے۔ اتنے میں دو مسلمان آپس میں جھگڑ پڑے۔ آپ نے فرمایا: ”میں تو اس لیے باہر نکلا تھا کہ تمہیں شب قدر بتاؤں، مگر فلاں فلاں آدمی جھگڑ پڑے، اس لیے وہ (میرے دل سے) اٹھا لی گئی اور شاید یہی تمہارے حق میں مفید ہو۔ اب تم شب قدر کو رمضان کی ستائیسویں، انتیسویں اور پچیسویں رات میں تلاش کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:49]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث کا تعلق عنوان کے پہلے حصے سے ہے کیونکہ لڑائی کے موقع پر عموماً آوازیں بلند ہوجاتی ہیں اور ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں رفع صوت پر حبط اعمال کا خطرہ قرآن کریم سے ثابت ہے۔ (الحجرات: 49: 2) پہلے تو لڑائی جھگڑا خود ہی ایک مذموم فعل ہے۔ پھر اگر یہ فعل مسجد میں ہوتو اس کی شناعت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ پھر یہ واقعہ خود مسجد نبوی میں پیش آیا جہاں ایک نماز پڑھنے سے ایک ہزار نماز کا ثواب ملتا ہے، مزید برآں وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ یہ تمام چیزیں ایک بُرائی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں۔ ایسی صورت حال کے پیش نظر تو حبط اعمال کا خطرہ ہی خطرہ ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک سے اس کی تعیین کا علم محو کردینے میں امت کے لیے یہ تنبیہ ہے کہ یہ بھی احباط ہی کی ایک قسم ہے، لہذا ہمیں حبط کے تمام اسباب سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 2۔ اس حدیث کا عنوان کے دوسرے حصے سے بھی تعلق ہوسکتا ہے کیونکہ اس میں باہمی جنگ وجدال پر اصرار سے اجتناب کا امر تھا۔ اس حدیث میں تقاتل(باہم لڑائی) کی خرابی اور اس کا انجام بتایا گیا ہے کہ اس خصومت کی نحوست سے شب قدر کی تعیین جیسی عظیم دولت سے ہمیں محروم کردیاگیا اگرچہ اس میں یہ حکمت تھی کہ اس کی تلاش میں لوگ زیادہ عبادت کریں۔ عنوان کے آخری حصے سے اس حدیث کی مناسبت بایں طور پر بھی بیان کی گئی ہےکہ باہمی جنگ وجدال بسا اوقات گالی گلوچ تک پہنچا دیتا ہے جو فسق ہے جورفتہ رفتہ ایمان کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لیلۃ القدر رمضان المبارک کی آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے اور وہ ہرسال انھی تاریخوں میں آتی ہے۔ جو لوگ اس کو ستائیسویں رات کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں، ان کا خیال درست نہیں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 49
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2023
2023. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ ہمیں شب قدر کی خبردینے کے لیے تشریف لارہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں جھگڑا کرنے لگے۔ آپ نے فرمایا: ”میں تمھیں شب قدر بتانے کے لیے باہر آیا تھا لیکن فلاں فلاں جھگڑ پڑے تو اس کی معرفت کو اٹھا لیا گیا اور امید ہے کہ تمھارے حق میں یہی بہتر ہوگا لہٰذا اب تم اسے نویں، ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2023]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے مذکورہ حدیث کی تشریح کی ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ ہیں: ”لوگوں کے جھگڑنے کی وجہ سے اسے اٹھا لیا گیا۔ “ حالانکہ شب قدر کو نہیں بلکہ اس کی تعیین اور معرفت کو اٹھا لیا گیا ہے۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد اسے آخری عشرے کی مخصوص راتوں میں تلاش کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر اس کی ذات اور وجود کو اٹھا لیا گیا ہوتا تو اسے مخصوص راتوں میں تلاش کرنا چہ معنی دارد؟ (2) محدثین نے امام بخاری ؒ کے اس قسم کے تراجم اور عناویں کو ”شارحہ“ قرار دیا ہے۔ اس کی معرفت اور پہچان کا اٹھایا جانا ہمارے لیے اس لیے بہتر ہے کہ اس اخفا کی وجہ سے کم از کم آخری عشرے کی عبادت ہوتی رہے گی۔ (3) علمائے حدیث نے احادیث کی روشنی میں شب قدر کی کچھ علامات ذکر کی ہیں، چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ شب قدر کی صبح کو سورج بلند ہونے تک اس کی شعاع نہیں ہوتی وہ تھالی کی مانند ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث: 1785(762) ٭ اس میں جب چاند طلوع ہوتا ہے تو بڑے تھال کے کنارے کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2779(1170) ٭ وہ رات بڑی معتدل ہوتی ہے، اس میں گرمی ہوتی ہے نہ سردی، اس صبح کا سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ اس کی سرخی مدہم ہوتی ہے۔ (صحیح ابن خزیمة: 331/3) ٭ حافظ ابن حجر ؒ نے ابن ابی شیبہ کے حوالے سے لکھا ہے: اس رات ہلکی ہلکی ہوا چلتی ہے اور بارش بھی ہوتی ہے، نیز اس رات شیاطین کو شہاب ثابت نہیں مارے جاتے کیونکہ اس رات اتنے فرشتے زمین پر اترتے ہیں کہ شیاطین ان سے دبک جاتے ہیں۔ (فتح الباري: 330/4، ومسندأحمد: 340/4) ٭ حافظ ابن حجر ؒ نے طبری کے حوالے سے لکھا ہے: اس رات ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ تمام درخت سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور امام بیہقی کے حوالے سے لکھا ہے: اس رات نمکین پانی میٹھا ہو جاتا ہے لیکن ان روایات کی استنادی حیثیت انتہائی کمزور ہے۔ (فتح الباري: 330/4)(4) اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ شب قدر کی معرفت کا اٹھ جانا لوگوں کے جھگڑنے کی وجہ سے ہوا لیکن صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے شب قدر دکھائی جا رہی تھی کہ اچانک مجھے اہل خانہ نے بیدار کر دیا تو میں اسے بھول گیا۔ “(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2768(1166) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نسیان کا سبب اہل خانہ کا آپ کو بیدار کر دینا تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ متعدد دفعہ ایسا ہوا ہو یا ایک ہی واقعے میں دو دفعہ نسیان ہو گیا ہو۔ (فتح الباري: 340/4) واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2023