ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی دستور کے موافق ہر طرح سے عزت کرے۔ پوچھا: یا رسول اللہ! دستور کے موافق کب تک ہے۔ فرمایا ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن کی ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے اور جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ بہتر بات کہے یا خاموش رہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 6019]
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6019
� فہم الحدیث: درج بالا اور ان جیسی دیگر احادیث میں جو بعض امور خیر کی نفی کے ساتھ ایمان کی نفی کی گئی ہے ان سے مقصود حقیقیت ایمان کی نفی نہیں بلکہ کمال ایمان کی نفی ہے یعنی اگر کوئی ان خصال کے ساتھ متصف نہیں ہوتا تو اس کا ایمان کامل نہیں، یہ مطلب نہیں کہ اس میں ایمان ہے ہی نہیں۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 30
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6019
حدیث حاشیہ: پڑوسی کے اکرام کا حکم اشخاص، حالات اور مقام کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کا کم ازکم مرتبہ اچھے اخلاق سے پیش آنا ہے۔ حافط ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث نقل کی ہے، جس سے پڑوسی کے حقوق کا پتا چلتا ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! ایک پڑوسی کے دوسرے پڑوسی پر کیا حقوق ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ”جب وہ قرض طلب کرے تو اسے قرض دے۔ جب وہ مدد طلب کرے تو اس کا تعاون کرے۔ جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی تیماداری کرے۔ جب وہ ضرورت مند ہو تو اس کی ضرورت پوری کرے۔ جب وہ محتاج ہو تو اس کی خبر گیری کرے۔ جب اسے کوئی خوشی ملے تو اسے مبارک باد دے۔ اگر اسے کوئی مصیبت پہنچے تو اسے تسلی دے۔ جب وہ فوت ہو جائے تو اس کا جنازہ پڑھے، اس کے گھر سے اپنی دیواریں اونچی نہ کرے تاکہ قدرتی ہوا کی بندش نہ ہو (اس کی اجازت سے کیا جا سکتا ہے) جب گھر میں اچھا کھانا پکائے تو اسے بھی کچھ دے۔ اگر پھل خریدے تو اسے کچھ ہدیہ دے، اگر نہ دے سکے تو اسے پوشیدہ طورپر گھر میں لے جائے تاکہ اس کے بچوں کو تکلیف نہ ہو۔ اگر کوئی کوتاہی دیکھے تو پردہ پوشی سے کام لے۔ (فتح الباري: 548/10، وسلسلة الأحادیث الضعیفة: 96/6، رقم 2587) اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے، تاہم معنی کے اعتبار سے صحیح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6019