مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن معن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جسے پسند ہے کہ اس کی روزی میں فراخی ہو اور اس کی عمردراز کی جائے تو وہ صلہ رحمی کیا کرے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 5985]
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1252
´نیکی اور (رشتہ داری) ملانے کا بیان` «عن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: من احب ان يبسط له فى رزقه وان ينسا فى اثره فليصل رحمه. اخرجه البخاري.» سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس کسی کو یہ پسند ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی و کشائش ہو اور عمردراز ملے تو اسے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔“[بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب البر والصلة: 1252]
«البر» باء کے کسرہ کے ساتھ بہت زیادہ نیکی کرنا صدق، فرمانبرداری، کسی سے حسن سلوک خصوصاً ماں باپ کے ساتھ۔ عام طور پر ماں باپ سے حسن سلوک کو «بِرٌّ» کہتے ہیں۔ باء کے فتحہ کے ساتھ «بر» بہت زیادہ نیکی کرنے والا یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے کیونکہ وہ اپنی مخلوق کے ساتھ بہت زیادہ احسان کرتا ہے۔
یحییٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا: «وبرا بوالديه»”ماں باپ کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کرنے والے تھے۔“ اس کے مقابلے میں بدسلوکی، ایذاء رسانی خصوصاً والدین کی ایذاء رسانی کو «عقوق» کہتے ہیں اور ایسا کرنے والے کو «عاق» کہتے ہیں۔ «صِلَةٌ وَصَلَ يَصِلَ وَصْلاً» کا مصدر ہے جس طرح «وَعَدَ يَعِدُ» کا مصدر «وَعْدًا» اور «عِدَةً» آتا ہے۔ اس کا لغوی معنی ملانا، پیوند لگانا، جوڑنا آتا ہے یہاں اس سے مراد اپنے رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات درست رکھنا، ان پر خرچ کرنا اور ان سے میل جول قائم رکھنا، ان کی بے رخی کے باوجود ان سے احسان کرنا ہے۔ صلہ رحم کے مقابلے میں قطع رحم ہے۔
رشتہ داری قائم رکھنے کے فائدے تخریج: [بخاري 5985]، فتح الباری میں ہے «مَنْ اَحَبَّ» انس کی روایت ہے ابوہریرہ کی روایت «مَنْ سَرَّهُ» ہے۔
مفردات «ينسا» باب «مَنَعَ يَمْنَعُ» سے ہے ”تاخیر کی جائے۔“ «اَثَرِهِ» قدموں کے نشان کو اثر کہتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اس کی زندگی دیر تک باقی رہے عمر میں اضافہ ہو جائے کیونکہ انسان کے قدموں کے نشان اسی وقت تک زمین پر لگتے ہیں جب تک وہ زندہ ہے۔ یا مراد یہ ہے کہ دنیا میں اس کی یادگاریں دیر تک باقی رہیں۔ «رَحِمَهُ رَحِم» اصل میں بچہ دانی کو کہتے ہے۔ اس سے مراد وہ قرابت ہے جو شکم سے پیدا ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ حاصل ہوتی ہے۔
فوائد: ➊ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے رزق میں فراخی ہوتی ہے اور عمر بڑھتی ہے بعض لوگوں کو اس حدیث پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب تقدیر میں رزق مقرر کر دیا گیا ہے اور وہ اتنا ہی ملے گا جتنا لکھ دیا گیا ہے اسی طرح عمر بھی طے ہو چکی ہے۔ «فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ»[7-الأعراف:34] ”جب ان کا مقرر وقت آ گیا تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہوں گے نہ پہلے۔“
تو رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے رزق میں فراخی اور عمر میں اضافہ کس طرح ہو سکتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں ہی رزق کی فراخی کے اسباب اور عمر بڑھنے کے اسباب بھی لکھ رکھے ہیں۔ مثلاً جو شخص محنت کرے گا ہوش مندی اختیار کرے گا اسے کھلا رزق ملے گا اور جو کاہلی اور سستی اختیار کرے گا وہ تنگدست ہو جائے گا۔ اسی طرح اچھا کھانا، اچھی آب و ہوا، اچھا ماحول انسان کو صحت مند رکھنے کے اسباب ہیں جن سے عمر بڑھتی ہے۔ ناقص ناموافق ماحول، بیماری اور پریشانی کا باعث بنتا ہے جس سے عمر گھٹتی ہے۔ جس طرح رزق اور عمر میں اضافے کے یہ ظاہری اسباب ہیں اسی طرح اس کے کچھ روحانی اور ربانی اسباب بھی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بیان فرمائے ہیں۔ جو شخص اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا اسے قلبی اطمینان، دلی مسرت اور اوقات عزیزہ میں برکت حاصل ہو گی اور جو کام کرے گا دلجمعی سے کرے گا اس سے اس کے رزق میں فراخی ہو گی اور اطمینان قلب پر ہی صحت کا دارومدار ہے، جب صحت درست ہو گی تو عمر میں اضافہ ہو گا اس کے برعکس جس کم نصیب کا اپنوں سے ہی مقاطعہ ہے وہ ہر وقت رنج و غم میں رہے گا اپنے رشتے داروں کو ہی نیچا دکھانے کی فکر میں رہے گا، یہ قطع تعلق نہ اسے دنیا کے کام چھوڑے گا نہ دین کے کام کا۔ طبیعت چڑچڑی اور قوتیں مضحمل ہو جائیں گی اس کا نتیجہ کاروبار میں ناکامی اور پریشان کن بیماریوں کی صورت میں ظاہر ہو گا جس سے رزق تنگ اور صحت برباد ہو جائے گی اور یہی چیزیں آدمی کو موت کے قریب کر دیتی ہیں۔ اصل یہ ہے کہ تمام اسباب کو پیدا کرنے والے پروردگار کا یہ وعدہ ہے کہ جو شخص اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک رکھے گا اس کے رزق میں فراخی اور اس کی عمر میں اضافہ ہو گا۔ جس طرح اس کا وعدہ ہے کہ جو شخص ایمان لائے گا اور عمل صالح کرے گا اسے جنت ملے گی۔ حالانکہ جنت میں جانے والوں اور جہنم میں جانے والوں کے نام تقدیر میں پہلے ہی لکھے جا چکے ہیں، مگر ایمان اور عمل صالح جنت میں جانے کا سبب ہے اسی طرح صلہ رحم فراخی رزق اور درازی عمر کا سبب ہے۔ ترمذی میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دوسری سند کے ساتھ یہ الفاظ بھی آئے ہیں: «فإن صلة الرحم محبة فى الاهل مثراة فى المال منساة فى الاثر»”رشتہ داری کو ملانا گھر والوں میں محبت، مال میں ثروت اور نشان قدم میں تاخیر (عمر میں برکت) کا باعث ہے۔“[ترمذي البر49]، [صحيح الترمذي1612]
➋ «وينساله فى اثره» اور اس کے نشان قدم میں تاخیر کی جائے۔ اس کے مفہوم میں کئی چیزیں شامل ہیں۔ پہلی تو یہ کے صلہ رحمی کرنے والے شخص کی عمر میں حقیقی اضافہ ہو جاتا ہے اس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔ دوسری یہ کہ اس کی عمر میں برکت ہوتی ہے اس کے اوقات ضائع نہیں جاتے بلکہ اللہ تعالیٰ اسے عافیت کی نعمت سے نوازتے ہیں تھوڑے وقت میں زیادہ نیکی کی توفیق دیتے ہیں حتیٰ کہ یہ تھوڑی عمر بہت لمبی عمر سے بھی اجر و ثواب حاصل کرنے میں بڑھ جاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ قوموں کی بہت لمبی عمروں کے مقابلے میں اس امت کی عمر بہت تھوڑی رکھی مگر لیلۃ القدر کے ساتھ اس کمی کو پورا فرما دیا بلکہ اس امت کا ثواب پہلی امتوں سے زیادہ کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو ہزار برس عمر ملے مگر نیکی کی توفیق نہ ملے تو اس کی عمر گھٹ گئی بلکہ برباد ہو گئی اور جس کو نیکی کی توفیق مل گئی خواہ عمر تھوڑی بھی ہو اس کی عمر بڑھ گئی کیونکہ اس کے کام آ گئی۔ تیسری یہ کہ اسے ایسے اعمال کی توفیق ملتی ہے کہ مرنے کے بعد بھی اسے ان کا ثواب پہنچتا رہتا ہے اور لوگ اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں اس کی اچھی تعریف ہوتی رہتی ہے گویا وہ مرنے کے بعد بھی نہیں مرتا اس کے آثار باقی رہتے ہیں مثلاً ایسا علم چھوڑ جائے جس سے لوگوں کو فائدہ ہوتا رہے صدقہ جاریہ، نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے اس کی وفات رباط (جہاد میں پہرہ دینے کی حالت) میں آ جائے کہ قیامت تک اس کا اجر جاری رہے۔
➌ صلہ رحمی کا اصل اجر ثواب و ثواب تو قیامت کو ملے گا مگر دنیا میں بھی اس کے یہ فائدے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص کے ذہن میں نیکی کرتے وقت آخرت کے اجر و ثواب کے ساتھ دنیا میں بھی اس عمل کا فائدہ پہنچنے کی نیت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ صدقہ کرنے سے دنیا میں بھی مال میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ جہنم سے بچنے کا ذریعہ بھی ہے شرط یہ ہے کہ صرف دنیا ہی اس کا مقصود نہ ہو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: «فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ٭ وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ٭ أُولَـئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا وَاللَّـهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ»[2-البقرة:200] ”تو لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا میں دے اور آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں اور ان سے کوئی وہ ہے جو کہتا ہے اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ انہی لوگوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو انہوں نے کمایا اور اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔“
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 65