ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن عباد نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہیں یحییٰ بن ابی اسحاق نے خبر دی، کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر سے واپس آ رہے تھے اور میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور چل رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیوی صفیہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے پیچھے تھیں کہ اچانک اونٹنی نے ٹھوکر کھائی، میں نے کہا عورت کی خبرگیری کرو پھر میں اتر پڑا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہاری ماں ہیں پھر میں نے کجاوہ مضبوط باندھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے پھر جب مدینہ منورہ کے قریب ہوئے یا (راوی نے بیان کیا کہ) مدینہ منورہ دیکھا تو فرمایا ”ہم واپس ہونے والے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونے والے ہیں، اسی کو پوجنے والے ہیں، اپنے مالک کی تعریف کرنے والے ہیں۔“[صحيح البخاري/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 5968]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5968
حدیث حاشیہ: غزوۂ خیبر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ بطور خدمت گار شریک ہوئے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کریں گے۔ حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اونٹنی کے پھسل جانے کے بعد تمام خدمات حضرت انس رضی اللہ عنہ نے سر انجام دیں، حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ اس وقت ان کی عمر صرف دس برس تھی اور کم سن بچے تھے بلکہ یہ تمام خدمات ان کی والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے شوہر نامدار حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے انجام دی تھیں جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 3086)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5968
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6185
6185. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت ابو طلحہ ؓ نبی ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے جبکہ ام المومنین صفیہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی سواری پر پیچھے بیٹھی تھیں راستے میں کسی جگہ اونٹنی کا پاؤں پھسلا تو نبی ﷺ نےاپنے اونٹ سئ چھلانگ لگائی اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کی: اللہ کے نبی! اللہ تعالٰی مجھے آپ پر فدا کرے! کیا چوٹ تو نہیں آئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں“”لیکن عورت کا پتہ کرو“ چنانچہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے چہرے پر کپڑا ڈال لیا، پھر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھے اور وہ کپڑا ان پر ڈال دیا۔ اس کے بعد وہ کھڑی ہوگئیں پھر انہوں نے دونوں کے لیے پالانن مضبوط کرکے باندھا تو وہ سوار ہوکر پھر چل پڑے حتیٰ کہ جب ہو مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے یا مدینہ طیبہ پر ان کی نظر پڑی تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہم لوٹنے والے ہیں توبہ کرتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی حمد وثنا کرنے والے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:6185]
حدیث حاشیہ: ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو اس حالت میں دیکھ کر از راہ تعظیم لفظ جعلني اللہ فداك (اللہ مجھ کو آپ پر قربان کرے) بولا۔ جس کو آپ نے ناپسند نہیں فرمایا۔ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ مدینہ منورہ خیریت سے واپسی پر آپ نے آئبون تائبون الخ کے الفاظ استعمال فرمائے۔ اب بھی سفر سے وطن بخیریت واپسی پر ان الفاظ کا ورد کرنا مسنون ہے۔ خاص طور پر حاجی لوگ جب وطن پہنچیں تو یہ دعا پڑھتے ہوئے اپنے شہر یا بستی میں داخل ہوں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6185
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6185
6185. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت ابو طلحہ ؓ نبی ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے جبکہ ام المومنین صفیہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی سواری پر پیچھے بیٹھی تھیں راستے میں کسی جگہ اونٹنی کا پاؤں پھسلا تو نبی ﷺ نےاپنے اونٹ سئ چھلانگ لگائی اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کی: اللہ کے نبی! اللہ تعالٰی مجھے آپ پر فدا کرے! کیا چوٹ تو نہیں آئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں“”لیکن عورت کا پتہ کرو“ چنانچہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے چہرے پر کپڑا ڈال لیا، پھر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھے اور وہ کپڑا ان پر ڈال دیا۔ اس کے بعد وہ کھڑی ہوگئیں پھر انہوں نے دونوں کے لیے پالانن مضبوط کرکے باندھا تو وہ سوار ہوکر پھر چل پڑے حتیٰ کہ جب ہو مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے یا مدینہ طیبہ پر ان کی نظر پڑی تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہم لوٹنے والے ہیں توبہ کرتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی حمد وثنا کرنے والے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:6185]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں صراحت ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ”اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے!“ اگر ایسا کہنا جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے منع فرما دیتے۔ ہمارے رجحان کے مطابق اگر کوئی اپنے سے بڑے صاحب علم و فضل کو عزت افزائی کے لیے کہے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ثواب بھی دے گا کیونکہ یہ اس توقیر و احترام سے ہے جس کا شریعت نے ہمیں حکم دیا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ذکر کی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کے لیے گئے تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ کا کیا حال ہے؟ اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابھی تک تم نے اپنی بدویت کو نہیں چھوڑا۔ “(شعب الإیمان للبیهقي: 459/6، رقم: 8892) لیکن یہ حدیث ضعیف ہے اور صحیح روایات کے مقابلے میں پیش نہیں کی جا سکتی۔ اگر صحیح بھی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مریض کو اس طرح کے کلمات نہیں کہنے چاہئیں بلکہ اس کے لیے انس و نرمی اور دعائے شفا کرنی چاہیے۔ (فتح الباري: 698/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6185