ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے بکیر بن عبداللہ نے، ان سے بسر بن سعید نے اور ان سے زید بن خالد رضی اللہ عنہ نے اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فرشتے اس گھر میں نہیں داخل ہوتے جس میں تصویریں ہوں۔“ بسر نے بیان کیا کہ (اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد) پھر زید رضی اللہ عنہ بیمار پڑے تو ہم ان کی مزاج پرسی کے لیے گئے۔ ہم نے دیکھا کہ ان کے دروازہ پر ایک پردہ پڑا ہوا ہے جس پر تصویر ہے۔ میں نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے ربیب عبیداللہ بن اسود سے کہا کہ زید بن خالد رضی اللہ عنہ نے ہمیں اس سے پہلے ایک مرتبہ تصویروں کے متعلق حدیث سنائی تھی۔ عبیداللہ نے کہا کہ کیا تم نے سنا نہیں تھا، حدیث بیان کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جو مورت کپڑے میں ہو وہ جائز ہے (بشرطیکہ غیر ذی روح کی ہو)۔ اور عبداللہ بن وہب نے کہا، انہیں عمرو نے خبر دی وہ ابن حارث ہیں، ان سے بکیر نے بیان کیا، ان سے بسر نے بیان کیا، ان سے زید نے بیان کیا، ان سے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 5958]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5958
حدیث حاشیہ: عبداللہ بن وہب کی روایت باب بدا الخلق میں موصولاً گزر چکی ہے۔ نووی نے کہا احادیث میں جمع کرنا ضروری ہے اس لیے اس حدیث میں جس میں "إلا رقما في ثوب'' ہے یہ معنی کریں گے کہ کپڑے کی وہ نقشی تصویریں جائز ہیں جو غیر ذی روح کی ہوں جیسے درخت وغیرہ بلکہ غیر ذی روح کی تصویر تو مطلقاً جائز ہے خواہ کپڑے یا کاغذ میں منقوش ہو یا مجسم ہو پھر خاص نقش کا استثناء اس کا کوئی معنی نہ ہوگا۔ ابن عربی نے کہا مجسم تصویر ذی روح کی تو بالاتفاق حرام ہے اور نقشی تصویر اور عکسی فوٹو کی تصاویر میں چار قول ہیں ایک یہ کہ مطلقاً جائز ہے دوسرے یہ کہ مطلقاً منع ہے اور ذی روح تصویروں کے لیے وہ جس طرح بھی تیار کی جائیں یہی قول راجح ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اگر گردن تک کی ہو یا اتنے بدن کی جس سے وہ ذی روح جی نہیں سکتا ہو جائز ہے ورنہ نہیں۔ چوتھے یہ کہ اگر فرش یا تکیہ پر ہو جس میں اس کی اہانت ہوتی ہے تو جائز ہے اور اگر معلق ہو۔ (جیسے کہ آج کل فوٹو بطور برکت وحسن لٹکائے جاتے ہیں) تو یہ ہر گز جائز نہیں ہے لیکن لڑکیاں جو گڑیا بنا کر کھیلتی ہیں وہ بالاتفاق درست ہیں۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5958
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5958
حدیث حاشیہ: (1) حضرت بسر بن سعید جناب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے عبیداللہ خولانی کے ہمراہ گئے تھے وہاں ان سے سوال کیا جیسا کہ ایک دوسری روایت میں ہے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3226)(2) واضح رہے کہ "إلا رقما في الثوب" سے مراد وہ تصویر والا کپڑا ہے جو پاؤں تلے روندا جائے یا بچھونے کی طرح اسے نیچے بچھایا جائے تو ایسے کپڑے میں کوئی حرج نہیں۔ دراصل آغاز اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کی تصویر سے منع فرمایا تھا کیونکہ لوگوں نے تازہ تازہ تصاویر کی عبادت ترک کی تھی۔ جب لوگ ان تصاویر سے پوری طرح متنفر ہو گئے تو ضرورت کے پیش نظر وہ تصاویر مباح کر دیں جنہیں پاؤں تلے روندا جاتا تھا اور ان کی بے قدری کی جاتی تھی کیونکہ بے قدر چیز کی کوئی بھی عبادت نہیں کرتا اور جو تصویریں ذلیل و خوار نہ ہوں بلکہ عزت و تکریم کے ساتھ انہیں رکھا گیا ہو ان کا حرام ہونا بدستور باقی رہا۔ (عمدة القاري: 15/130)(3) بہرحال بنیادی بات یہی ہے کہ جاندار اشیاء کی تصاویر اور صلیب یا معبودان باطلہ کے نشانات کو بطور زینت لٹکانا یا اپنے پاس رکھنا جائز نہیں لیکن اگر کپڑے پر یا کسی ایسی حالت میں ہوں جہاں ان کی توہین ہو رہی ہو تو جائز ہے لیکن ان سے پرہیز کرنا پھر بھی افضل ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5958
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5353
´تصویروں اور مجسموں کا بیان۔` علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کھانا تیار کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدعو کیا، چنانچہ آپ تشریف لائے اور اندر داخل ہوئے تو ایک پردہ دیکھا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں ۱؎، تو آپ باہر نکل گئے اور فرمایا: ”فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جن میں تصویریں ہوں۔“[سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5353]
اردو حاشہ: (1) اس حدیث سے بھی تصویر کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ (2) اہل علم و فضل کے لیے کھانا تیار کرنا اور انہیں کھانے پر بلانا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے۔ (3) یہ حدیث مبارکہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن خلق اور تواضع پر صریح دلالت کرتی ہے کہ آپ اپنے صحابۂ کرام کی دعوت پر ان کے ہاں کھانا کھانے کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ (4) جس گھر میں تصویر ہو اس میں رحمت کے فرشتے قطعاً داخل نہیں ہوتے، لہٰذا اس سے بڑی محرومی کیا ہو سکتی ہے کہ انسان کے گھر یا اس کی دکان اور کاروباری مرکز میں رحمت کا نزول نہ ہو۔ جب رحمت کے رشتے نہیں آئیں گے تو رحمت کس طرح آئے گی۔ (5) فرشتوں کی جبلت اور فطرت میں اطاعت الہٰی رکھ دی گئی ہے، اس لیے وہ کسی ایسی جگہ جاتے ہیں نہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی معصیت و نافرمانی ہوتی ہو۔ (6) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاں سے کھانا کھائے بغیر ہی واپس چلے گئے کیونکہ وہاں منقش اور تصویروں والا پردہ لٹکا ہوا تھا۔ اولاد یا عزیز و اقارب کو سمجھانے کا یہ انداز نہایت مؤثر ہے، اس لیے جس مجلس و محفل یا گھر میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صریح حکم کی مخالفت اور نافرمانی ہو رہی ہو اہل علم، خصوصاً وارثان منبر و محراب کو وہاں نہیں جانا چاہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5353
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4153
´تصویروں کا بیان۔` ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا مجسمہ ہو۔“ زید بن خالد نے جو اس حدیث کے راوی ہیں سعید بن یسار سے کہا: میرے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلو ہم ان سے اس بارے میں پوچھیں گے چنانچہ ہم گئے اور جا کر پوچھا: ام المؤمنین! ابوطلحہ نے ہم سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ایسا ایسا فرمایا ہے تو کیا آپ نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ آپ نے کہا: نہیں، لیکن میں نے جو کچھ آپ کو کرتے دیکھا ہے وہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4153]
فوائد ومسائل: 1: اگر اس پردے میں کوئی جاندار تصاویر سمجھی جائیں تو پھاڑ دینے سے زائل ہو گئیں اور انہیں تکیے وغیرہ میں استعمال کرنا جائز ہو گیا۔
2: بے مقصد طور دیواروں پر پردے لٹکانا اسراف اور فضول خرچی ہے جو قطعاحرام ہے۔
3: کتا اگر رکھوالی کے لئے ہو تو جائز ہے ورنہ نہیں۔
4: ذی روح اشیا کی تصاویریا ان کے بت گھروں اور دکانوں وغیر ہ میں رکھنے حرام ہیں۔ ان کی وجہ سے رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
5: یہ حدیث غیر شرعی اورمنکر کام کرنے والے کو اس کے سلام جواب نہ دینے پر بھی دلالت کرتی ہے۔
6: یہ حدیث صدیق اکبر کی بیٹی صدیقہ وعفیفہ کائنات ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ کی عظمت اور فضیلت پر بھی دلالت کرتی ہے کہ وہ ہر حال میں رسول ؐ کو راضی اور خوش رکھنے کے لئے مستعد رہتی تھیں اور آپ کی رضا مندی آپ کی اطاعت ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4153
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4155
´تصویروں کا بیان۔` زید بن خالد رضی اللہ عنہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے ہیں جس میں تصویر ہو۔“ بسر جو حدیث کے راوی ہیں کہتے ہیں: پھر زید بن خالد بیمار ہوئے تو ہم ان کی عیادت کرنے کے لیے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے دروازے پر ایک پردہ لٹک رہا ہے جس میں تصویر ہے تو میں نے ام المؤمنین میمونہ کے ربیب (پروردہ) عبیداللہ خولانی سے کہا: کیا زید نے ہمیں تصویر کی ممانعت کے سلسلہ میں اس سے پہلے حدیث نہیں سنائی تھی (پھر یہ کیا ہوا؟) تو عبیداللہ نے کہا: کیا آپ نے ان سے نہیں سنا تھا انہوں نے یہ بھی تو کہا تھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4155]
فوائد ومسائل: بنیادی بات یہی ہے کہ ذی روح اشیا کی تصویروں اور صلیب یا معبودان باطلہ کے نشانات کو بطور زینت لٹکانا ناجائز ہے، لیکن اگر کپڑے پر یا کسی ایسی حالت میں ہوں جہاں ا ن کی اہانت ہو رہی ہو تو مباح ہے تاہم پچنا پھر بھی افضل ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4155
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5517
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے، جس میں تصویر ہو۔“ بسر بیان کرتے ہیں، اس کے بعد زید (جس نے مجھے روایت سنائی تھی) بیمار ہو گئے تو ہم ان کی بیمار پرسی کے لیے گئے تو ان کے دروازہ پر ایک پردہ پایا، جس میں تصویر تھی تو میں نے (اپنے ساتھی) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پروردہ عبیداللہ خولانی سے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:5517]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: رقم: کا اصل معنی تحریر وکتابت ہوتا ہے، اس لیے اس سے مراد نقش اور بیل بوٹے ہیں۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے، جو کہتے ہیں، وہ تصویر جس کا سایہ نہ ہو یعنی جسم نہ ہو، وہ جائز ہے، لیکن جمہور کے نزدیک اس کا معنی غیر جاندار اشیاء کا نقش ہے، یعنی پھول، کلیاں، درخت وغیرہ کا نقش، کیونکہ رقم کا معنی بقول ابن منظور خُطَط من الوشي بیل بوٹوں کے نقوش اور بقول امام راغب، الخط الغليظ، موٹی دھاری یا موٹا نقش اور بقول ابن اثیر، الرقم، النقش و اصله الكتابة، نقش و نگار اور اس کا اصل معنی لکھنا یا تحریر ہے، اس لیے اس کا معنی تصویر کرنا درست نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5517
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5518
بسر بن سعید بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث سنائی اور میرے ساتھ عبیداللہ خولانی بھی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے، جس میں تصویر ہو۔“ بسر کہتے ہیں، حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ بیمار ہو گئے تو ہم ان کی عیادت کے لیے گئے تو ہم نے ان کے گھر میں پردہ دیکھا، جس میں تصاویر تھیں تو میں نے عبیداللہ خولانی سے کہا، کیا انہوں نے ہمیں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:5518]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ممنوعہ تصاویر سے مراد جاندار اشیاء کی تصاویر ہیں اور غیر جاندار اشیاء کی تصاویر درحقیقت نقش و نگار ہوتے ہیں، کیونکہ وہ محض بے جان نقش یا خطوط ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5518
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5519
حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہوں۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5519]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: تماثيل: تمثال کی جمع ہے، کسی کی نظیر وشبیہ، مورت ہو یا صورت۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5519
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3226
3226. بسر بن سعید اور عبیداللہ خولانی، جو نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ ؓ کے زیر تربیت تھے، ان دونوں سے حضرت زید بن خالد ؓ نے بیان کیا، انھیں حضرت ابو طلحہ ؓ نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے جس میں کسی جاندار کی تصویر ہو۔“ بسر بن سعید نے کہا کہ ایک دفعہ حضرت زید بن خالد ؓ بیمار ہوگئے تو ہم ان کی تیمارداری کے لیے گئے۔ ہم نے ان کے گھر میں ایک پردہ دیکھا جس میں تصویریں تھیں۔ میں نے عبیداللہ خولانی سے کہا: کیا انھوں نے ہمیں تصاویر کے متعلق خبر نہیں دی تھی؟ عبیداللہ نے جواب دیا کہ انھوں نے کہا تھا کپڑے کے نقوش اس سے استثنیٰ ہیں۔ کیا تم نے یہ الفاظ نہیں سنے تھے؟میں نے کہا: نہیں۔ انھوں نے بتایا: کیوں نہیں، انھوں نے یہ بھی بیان کیاتھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3226]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ فرشتے امور معاصی سے نفرت کرتے ہیں۔ جاندار کی تصویر بنانا بھی عنداللہ معصیت ہے۔ اس لیے جس گھر میں ایسی تصویر ہو اس میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے، وہ گھر رحمت الٰہی سے محروم ہوتا ہے۔ ارشاد نبوی میں جو کچھ وارد ہوا وہ برحق ہے۔ اس میں کرید کرنا بدعت ہے۔ فرشتے روحانی مخلوق ہیں۔ وہ جیسے ہیں ایسے ہی ان کے کارنامے بھی ہیں۔ حضرت زید بن خالد کے گھر میں پردے کے کپڑے پر غیرجاندار تصویریں تھیں جو اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3226