ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ اللہ تعالیٰ نے حسن کے لیے گودنے والیوں، گدوانے والیوں پر اور چہرے کے بال اکھاڑنے والیوں پر اور دانتوں کے درمیان کشادگی پیدا کرنے والیوں پر، جو اللہ کی خلقت کو بدلیں ان سب پر لعنت بھیجی ہے، میں بھی کیوں نہ ان لوگوں پر لعنت کروں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور اس کی دلیل کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت خود قرآن مجید میں موجود ہے۔ آیت «وما آتاكم الرسول فخذوه» ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 5931]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5931
حدیث حاشیہ: اللہ تعالیٰ نے اس آیت مذکورہ میں فرمایا کہ جو حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو دیں تو تم اسے تسلیم کرلو اور جس سے روکیں اس سے باز رہو۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ارشادات نبوی کو جن کا دوسرا نام حدیث ہے تسلیم کرنا فرض ہے۔ اس سے گروہ منکرین حدیث نبوی کا رد ہوا جو حدیث نبوی کا انکار کر کے قرآن کو اپنی خواہش کے مطابق بنانا چاہتے ہیں، اللہ اس گمراہ فرقے سے محفوظ رکھے۔ اس دور آزادی میں ایسے لوگوں نے کافی فتنہ برپا کیا ہوا ہے جو عامۃ المسلمین کے ایمانوں پر ڈاکہ ڈالتے رہتے ہیں، ان میں بعض لوگ تین وقت کی نماز بعض دو وقت کی نمازوں کے قائل ہیں اور نماز کو بھی اپنی خواہش کے مطابق غلط سلط ڈھال لیا ہے۔ ھداھم اللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5931
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5931
حدیث حاشیہ: (1) دانت اگر پیدائشی طور پر باہم پیوست اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں تو کچھ عورتیں ریتی وغیرہ سے ان کے درمیان کشادگی پیدا کرتی ہیں تاکہ وہ ہنستے وقت ان کے دانت کھلے کھلے خوبصورت نظر آئیں۔ چونکہ اس مصنوعی حسن کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کی خلقت کو بدلا جاتا ہے، اس لیے شرعاً یہ کام حرام اور باعث لعنت ہے۔ عام طور پر یہ عمل اگلے دانتوں میں کیا جاتا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ عمر رسیدہ عورتیں ایسا کام کرتی ہیں تاکہ وہ کم عمر نظر آئیں کیونکہ چھوٹی عمر میں قدرتی طور پر دانت کشادہ ہوتے ہیں، جب عمر زیادہ ہو جاتی ہے تو دانت خود بخود باہم پیوست ہو جاتے ہیں۔ اس عمل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "وشر" سے بھی تعبیر کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اگر کسی تکلیف کی وجہ سے یہ کام کیا جائے تو جائز ہے۔ (فتح الباري: 456/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5931