ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ جو شخص سر کے بالوں کو گوند لے (وہ حج یا عمرے سے فارغ ہو کر سر منڈائے) اور جیسے احرام میں بالوں کو جما لیتے ہیں غیر احرام میں نہ جماؤ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے میں نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بال جماتے دیکھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 5914]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5914
حدیث حاشیہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ بیان کر کے اپنے والد کا رد کیا کہ انہوں نے تلبید سے منع کیا حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تلبید کی، بہر حال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ مطلب نہ تھا بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ غیر احرام میں احرام والوں کی مشابہت کر کے تلبید نہ کرو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5914
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5914
حدیث حاشیہ: امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ موقف تھا کہ جو شخص بحالت احرام اپنے سر کے بالوں کو گوندھ کر ان کی مینڈھیاں بنا لیتا ہے تاکہ وہ پراگندہ نہ ہوں اسے چاہیے کہ فراغت کے بعد انہیں چھوٹا کرانے کے بجائے منڈوائے جیسا کہ تلبید کرنے والا اپنے سر کے بالوں کو منڈواتا ہے۔ انہوں نے بالوں کے گوندھنے کو گوند وغیرہ کے ساتھ جمانے سے تشبیہ دی۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ میرے والد گرامی تلبید کے عمل کو بہتر خیال نہیں کرتے، اس لیے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا حوالہ دیا کہ اگر تلبید کا عمل بہتر نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے عمل میں کیوں لاتے۔ (فتح الباري: 442/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5914