الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ
کتاب: لباس کے بیان میں
64. بَابُ تَقْلِيمِ الأَظْفَارِ:
64. باب: ناخن ترشوانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5892
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ، وَفِّرُوا اللِّحَى وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ"، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ.
ہم سے محمد بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے، انہوں نے کہا ہم سے عمر بن محمد بن زید نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم مشرکین کے خلاف کرو، داڑھی چھوڑ دو اور مونچھیں کترواؤ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی (ہاتھ سے) پکڑ لیتے اور (مٹھی) سے جو بال زیادہ ہوتے انہیں کتروا دیتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 5892]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريخالفوا المشركين وفروا اللحى وأحفوا الشوارب
   صحيح مسلمخالفوا المشركين أحفوا الشوارب وأوفوا اللحى
   سنن النسائى الصغرىأعفوا اللحى وأحفوا الشوارب

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5892 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5892  
حدیث حاشیہ:
بعض لوگوں نے اس سے داڑھی کٹوانے کی دلیل لی ہے جو صحیح نہیں ہے۔
اول تو یہ خاص حج سے متعلق ہے۔
دوسرے ایک صحابی کا فعل ہے وہ صحیح حدیث کے مقابلہ پر حجت نہیں ہے لہٰذا صحیح یہی ہو ا کہ داڑھی کے بال نہ کٹوائے جائیں، واللہ أعلم بالصواب۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5892   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،صحیح بخاری5892  
ایک مشت سے زیادہ داڑھی کاٹنا؟
جن احادیث میں داڑھیاں چھوڑنے، معاف کرنے اور بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے، ان کے راویوں میں سے ایک راوی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ دیکھئے: [صحيح البخاري 5892، 5893 وصحيح مسلم 259]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ وہ حج اور عمرے کے وقت اپنی داڑھی کا کچھ حصہ (ایک مشت سے زیادہ کو) کاٹ دیتے تھے۔ دیکھئے: [صحيح البخاري 5892 وسنن ابي داود 2357 وسنده حسن وحسنه الدارقطني 2/ 182 وصححه الحاكم 1/ 422 ووافقه الذهبي]
کسی صحابی سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ پر اس سلسلے میں انکار ثابت نہیں ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتاکہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ جیسے متبع سنت صحابی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنیں اور پھر خود ہی اس کی مخالفت بھی کریں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ایک آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:
«والأخذ من الشارب والأظفار واللحية»
مونچھوں، ناخنوں اور داڑھی میں سے کاٹنا۔
[مصنف ابن ابي شيبه 4/ 85 ح 15668 وسنده صحيح، تفسير ابن جرير 17/ 109 وسنده صحيح]
محمد بن کعب القرظی (تابعی، ثقہ عالم) بھی حج میں داڑھی سے کچھ کاٹنے کے قائل تھے۔ [تفسير ابن جرير 17/ 109 وسنده حسن]
ابن جریج بھی اس کے قائل تھے۔ [تفسير طبري 17/ 110 وسنده صحيح]
ابراہیم (نخعی) رخساروں کے بال کاٹتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 8/ 375 ح25473 وسنده صحيح]
قاسم بن محمد بن ابی بکر بھی جب سر منڈاتے تو اپنی مونچھوں اور داڑھی کے بال کاٹتے تھے۔ [ابن ابي شيبه: ح 25476 وسنده صحيح]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ ایک مشت سے زیادہ داڑھی کو کاٹ دیتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 8/ 375 ح 25479 وسنده حسن]
اس کے راوی عمر و بن ایو ب کو ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے (7/ 224، 225) اور اس سے شعبہ بن الحجاج نے روایت لی ہے۔ شعبہ کے بارے میں یہ عمومی قاعدہ ہے کہ وہ (عام طور پر) اپنے نزدیک ثقہ راوی سے ہی روایت کرتے تھے۔ دیکھئے تہذیب التہذیب (1/ 4، 5) اس عمومی قاعدے سے صرف وہی راوی مستثنیٰ ہو گا جس کے بارے میں صراحت ثابت ہو جائے یا جمہور محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہو۔
ان دو توثیقات کی وجہ سے عمر و بن ایو ب حسن درجے کا راوی قرار پاتا ہے۔
طاوس (تابعی) بھی داڑھی میں سے کاٹنے کے قائل تھے۔ (الترجل للخلال: 96 وسندہ صحیح، ہارون ھو ابن یوسف بن ہارون بن زیاد الشطوی) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی اسی جواز کے قائل تھے۔ [كتاب الترجل: 92]
ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مشت سے زیادہ داڑھی کاٹنا اور رخساروں کے بال لیناجائز ہے تاہم بہتر یہ ہے کہ داڑھی کو بالکل قینچی نہ لگائی جائے۔ «والله اعلم»
مسئلہ یہ نہیں ہے کہ صحابی کا عمل دلیل ہے یانہیں؟ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث کا کون سا فہم معتبر ہے۔ وہ فہم جو چودھویں پندرھویں صدی ہجری کا ایک عالم پیش کر رہا ہے یا وہ فہم یا جو صحابہ، تابعین و تبع تابعین اور محدثین کرام سے ثابت ہے۔؟!
ہم تو وہی فہم مانتے ہیں جو صحابہ، تابعین، تبع تابعین و محدثین اور قابلِ اعتماد علمائے امت سے ثابت ہے۔ ہمارے علم کے مطابق کسی ایک صحابی، تابعی، تبع تابعی، محدث یا معتبر عالم نے ایک مٹھی سے زیادہ داڑھی کو کاٹنا حرام یا ناجائز نہیں قرار دیا۔
حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
خلاصہ یہ ہے ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ یہ کہ سلف کا خلاف جائز نہیں کیونکہ وہ لغت اور اصطلاحات سے غافل نہ تھے ……
[فتاويٰ اهل حديث ج 1 ص 111]
اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 27 صفحہ 57 اور 58)
   ماہنامہ الحدیث حضرو، حدیث/صفحہ نمبر: 57   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5892  
تخريج الحديث:
[146۔ البخاري فى: 77 كتاب اللباس: 64 باب تقليم الاظفار 5892، مسلم 259، أبوداود 4199]
لغوی توضیح:
«وَفِّرُوْا» وافر کرو، بڑھاؤ۔
«اللِّحَي» جمع ہے «لِحْيَة» کی، معنی ہے داڑھی۔
«اَحْفُوْا» پوری طرح پست کرو۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 146   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5892  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کا عنوان سے کیا تعلق ہے؟ تاحال کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔
ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہو کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی اس عنوان کی پہلی اور تیسری حدیث ایک ہی ہے۔
کسی راوی نے اسے مختصر بیان کیا ہے جیسا کہ پہلی حدیث ہے اور کچھ راویوں نے اسے تفصیل سے بیان کر دیا ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے متعلق کوئی معقول توجیہ ذکر نہیں کی۔
علامہ عینی نے تو واضح طور پر لکھا ہے کہ اس حدیث کا یہاں ذکر کرنا مناسب نہیں بلکہ اس کا محل عنوان سابق ہے۔
(عمدة القاري: 90/15)
واللہ أعلم (2)
کچھ حضرات سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اس عمل کا سہارا لے کر داڑھی کی کانٹ چھانٹ کو جائز خیال کرتے ہیں، لیکن ان کا یہ عمل سنت نبوی کے خلاف ہے، پھر ان کا یہ عمل صرف حج یا عمرے کے موقع پر تھا تاکہ وہ حلق اور قصر کو جمع کر کے دونوں فضیلتیں جمع کریں۔
وہ عام حالات میں اسے معمول نہیں بناتے تھے۔
اس کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ داڑھی بڑھانے کی حدیث کے راوی بھی ہیں، محدثین کا یہ اصول ہے کہ جب کسی راوی کا عمل اس کی بیان کی ہوئی روایت کے خلاف ہو تو راوی کے عمل کے بجائے اس کی بیان کی ہوئی روایت کا اعتبار ہوتا ہے۔
کتب حدیث میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
اس کی مزید وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5892