ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ زہری نے ہم سے بیان کیا (سفیان نے کہا) ہم سے زہری نے سعید بن مسیب سے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) روایت کیا کہ پانچ چیزیں (فرمایا کہ) پانچ چیزیں ختنہ کرانا، موئے زیر ناف مونڈنا، بغل کے بال نوچنا، ناخن ترشوانا اور مونچھ کم کرانا پیدائشی سنتوں میں سے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 5889]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5889
حدیث حاشیہ: مونچھ اتنی کم کرانا کہ ہونٹ کے کنارے کھل جائیں یہی سنت ہے اور اہل حدیث نے اسی کو اختیار کیا ہے دیگر خصال فطرت یہی ہے ہر ایک کے فوائد بہت کچھ ہیں جن کی تفصیل کے لیے دفاتر کی ضرورت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5889
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5889
تخريج الحديث: [145۔ البخاري فى: 77 كتاب اللباس: 63 باب قص الشارب 5889، مسلم 257، ترمذي 2756] لغوی توضیح: «الْفِطْرَة» سنت، دین یا طبعی امور جن کا تعلق ہر انسان سے ہے یا جو کام تمام انبیاء کی سنت ہیں وغیرہ۔ «الْخِتَان» ختنہ کرنا یعنی اس تمام جلد کو کاٹنا جس نے بچے کے آلہ تناسل کے سرے کو ڈھانپا ہوتا ہے اور لڑکی کی شرمگاہ کے اوپر سے کچھ حصہ کاٹنا۔ «الْاِسْتِحْدَاد» زیر ناف بال مونڈنے کے لیے استرے کا استعمال۔ «نَتْفُ الْاِبِط» بغلوں کے بال اُکھیڑنا۔ «تَقْلِيْمُ الْاَظْفَار» ناخن کاٹنا۔ «قَصُّ الشَّارِب» مونچھیں پست کرنا۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 145
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5889
حدیث حاشیہ: (1) امور فطرت سے مراد وہ کام ہیں جن کا بجا لانا اس قدر اہم ہے گویا وہ پیدائشی ہیں، نیز جن اعمال کو تمام انبیاء علیہم السلام نے اختیار کیا ہو جن کی اقتدا کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، یہ امور اسلامی شعار ہیں جن کا بجا لانا ضروری ہے۔ بعض احادیث میں ان کی تعداد دس بیان ہوئی ہے جو درج ذیل ہیں: مونچھیں کتروانا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ناخن تراشنا، جوڑوں کا دھونا، بغلوں کے بال نوچنا، زیر ناف صفائی کرنا، استنجا کرنا اور کلی کرنا۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 604 (261) ان امور فطرت کی بجا آوری میں چالیس دن سے زیادہ وقت نہیں ہونا چاہیے۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 599 (258)(2) مونچھوں کے بالوں کا وہ حصہ جو ہونٹوں کے اوپر ہوتا ہے انہیں شوارب اور اطراف کو اسبال کہتے ہیں، انہیں اس قدر کم کیا جائے کہ ہونٹوں کے کنارے ظاہر ہو جائیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن العربی سے مونچھوں کے بال پست کرنے کی یہ حکمت بیان کی ہے کہ اگر بال بڑھے ہوئے ہوں تو ناک سے بہنے والا لیس دار پانی انہیں اس قدر خراب کر دیتا ہے کہ دھونے سے صاف نہیں ہوتے۔ اس سے انسان کا فطرتی حسن مجروح ہوتا ہے اور اس کے وقار و احترام کے بھی منافی ہے۔ اس لیے شریعت نے انہیں پست کرنے کا حکم دیا ہے۔ (فتح الباري: 427/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5889