ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق بن سعید بن عمرو بن سعید بن عاص نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ام خالد بنت خالد رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ کپڑے آئے جن میں ایک کالی چادر بھی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے، کسے یہ چادر دی جائے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام خالد کو بلا لاؤ۔ چنانچہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا اور مجھے وہ چادر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے عنایت فرمائی اور فرمایا دیر تک جیتی رہو، دو مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پھر آپ اس چادر کے نقش و نگار کو دیکھنے لگے اور اپنے ہاتھ سے میری طرف اشارہ کر کے فرمایا ام خالد! «سنا ". والسنا» یہ حبشی زبان کا لفظ ہے یعنی واہ کیا زیب دیتی ہے۔ اسحاق بن سعید نے بیان کیا کہ مجھ سے میرے گھر کی ایک عورت نے بیان کیا کہا کہ انہوں نے وہ چادر ام خالد رضی اللہ عنہا کے پاس دیکھی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 5845]
سنه سنه قال عبد الله وهي بالحبشية حسنة قالت فذهبت ألعب بخاتم النبوة فزبرني أبي قال رسول الله دعها ثم قال رسول الله أبلي وأخلقي ثم أبلي وأخلقي ثم أبلي وأخلقي قال عبد الله فبقيت حتى ذكر يعني من بقائها
أبلي وأخلقي مرتين فجعل ينظر إلى علم الخميصة ويشير بيده إلي ويقول يا أم خالد هذا سنا والسنا بلسان الحبشية الحسن قال إسحاق حدثتني امرأة من أهلي أنها رأته على أم خالد
سنه سنه قال عبد الله وهي بالحبشية حسنة قالت فذهبت ألعب بخاتم النبوة فزبرني أبي قال رسول الله دعها ثم قال رسول الله أبلي وأخلفي ثم أبلي وأخلفي ثم أبلي وأخلفي قال عبد الله فبقيت حتى ذكر
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5845
حدیث حاشیہ: نیا کپڑا پہننے والے کو یہ دعا دینا مسنون ہے کہ خدا تم کو یہ کپڑا مبارک کرے تم یہ کپڑا خوب پرانا کر کے پھاڑو یعنی تمہاری عمر درازہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5845
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5845
حدیث حاشیہ: (1) نیا کپڑا پہننے والے کو یہ دعا دینا مسنون ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے یہ لباس بابرکت بنائے۔ تم یہ کپڑا پرانا کر کے اتارو، یعنی تمہاری عمر لمبی ہو۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے حضرت ام خالد رضی اللہ عنہا نے لمبی عمر پائی تھی۔ ایک حدیث میں ہے کہ صحابۂ کرام میں جب کوئی نیا لباس پہنتا تو اسے یوں دعا دی جاتی: (تبلي و يخلف الله تعالی) ”اللہ کرے تم اسے خوب پرانا کرو اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے بعد اور بھی عنایت کرے۔ “ اس کے علاوہ بھی دعائیں منقول ہیں۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4020)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5845
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5993
´دوسرے کے بچے کو چھوڑ دینا کہ وہ کھیلے اور اس کو بوسہ دینا یا اس سے ہنسنا` «. . . عَنْ أُمِّ خَالِدٍ بِنْتِ خَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَتْ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَبِي وَعَلَيَّ قَمِيصٌ أَصْفَرُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَنَهْ سَنَهْ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَهِيَ بِالْحَبَشِيَّةِ حَسَنَةٌ، قَالَتْ: فَذَهَبْتُ أَلْعَبُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ فَزَبَرَنِي أَبِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَعْهَا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْلِي وَأَخْلِقِي ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِقِي ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِقِي، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَبَقِيَتْ حَتَّى ذَكَرَ، يَعْنِي مِنْ بَقَائِهَا . . .» ”. . . ام خالد بنت سعید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوئی۔ میں ایک زرد قمیص پہنے ہوئے تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”سنہ سنہ“ عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ یہ حبشی زبان میں ”اچھا“ کے معنی میں ہے۔ ام خالد نے بیان کیا کہ پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتم نبوت سے کھیلنے لگی تو میرے والد نے مجھے ڈانٹا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے کھیلنے دو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایک زمانہ تک زندہ رہو گی اللہ تعالیٰ تمہاری عمر خوب طویل کرے، تمہاری زندگی دراز ہو۔ عبداللہ نے بیان کیا چنانچہ انہوں نے بہت ہی طویل عمر پائی اور ان کی طول عمر کے چرچے ہونے لگے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: 5993]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5993 کا باب: «بَابُ مَنْ تَرَكَ صَبِيَّةَ غَيْرِهِ حَتَّى تَلْعَبَ بِهِ أَوْ قَبَّلَهَا أَوْ مَازَحَهَا:» باب اور حدیث میں مناسبت: ترجمۃ الباب کو امام بخاری رحمہ اللہ نے بچے کے کھیلنے اور اس کا بوسہ لینے اور ہنسنے پر قائم فرمایا، مگر تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا اس میں باب کے ایک جزء کے ساتھ مناسبت قائم نہیں ہوتی، امام بخاری رحمہ اللہ نے بوسہ دینے پر باب میں ذکر فرمایا ہے، مگر حدیث میں سرے سے ہی بوسہ کا ذکر موجود نہیں ہے، چنانچہ علامہ ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ليس فى الخبر المذكور فى الباب للتقبيل ذكر، والذي يظهر لي أن ذكر المزح بعد التقبيل من العام بعد الخاص، و أن الممازحة بالقول و الفعل مع الصغيرة إنما يقصد به التأنيس و التقبيل من جملة ذالك.»(1) ”اسی حدیث منقول میں تقبیل کا ذکر نہیں ہے تو محتمل یہ ہے کہ جب اس بچی کو اپنے جسم مبارک کے چھونے سے روکا نہیں تو یہ تقبیل کی طرح ہوا، مجھے جو ظاہر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ تقبیل کے بعد ذکر مزاح عام بعد الخاص کی قبیل سے ہے کہ صغیرہ کے ساتھ قول و فعل کے ذریعہ ممازحت سے غرض اس کی تانیس ہوتی ہے، تقبیل (بوسہ لینا) ان جملہ امور میں سے ہے۔“ یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بچی کے چھونے کو بوسہ لینے پر قیاس فرمایا ہو، چنانچہ علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «جعل تمكين النبى صلى الله عليه وسلم لها من ذالك يتنزّل منزلة ابتدائه بتناولها لتعلب، و قاس قبلة الصغيرة على المماسة.»(2) بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ”غالب یہ ہے کہ بچی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتم سے کھیلا، اسی سے مزح اور کھیلنا ثابت ہوا، اور اسی طرح بچی کو بوسہ دینا بھی، جیسا کہ حدیث سے بھی ظاہر ہے۔“(3) علامہ قسطلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «ليس فى حديث الباب للتقبيل ذكر فيحتمل أن يكون لما لم ينهها عن مس جسده صار كالتقبيل.»(4) ”ترجمۃ الباب کے تحت جس حدیث کا ذکر ہے اس میں بوسے کا ذکر نہیں ہے، احتمال اس بات کا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے مبارک جسم کو ہاتھ لگانے سے منع نہیں فرمایا تو بس یہ بوسے کی طرح ہوا۔“ یہ حقیر اور ناچیز بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دراصل اس باب کے تحت صرف قیاس فرمایا ہے تقبیل کے لیے، لیکن بعد والے باب میں مکمل دلیل سے وضاحت فرما دی ہے جو کہ اس باب کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب کے بعد یہ باب قائم فرمایا: «باب رحمة الولد وتقبيله ومعانقته»، لہذا باب «من ترك صبية . . . . .» میں بوسے پر قیاس فرمایا اور بعد کے باب میں اس پر دلیل پیش کر دی۔ لہذا اس قسم کی عادات امام بخاری رحمہ اللہ کی معروف ہیں۔ اس حقیر نے امام بخاری رحمہ اللہ کی اس عادت کو انواع التراجم میں بھی شامل کیا ہے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4024
´نیا کپڑا پہننے والے کو دعا دینے کا بیان۔` ام خالد بنت خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ کپڑے آئے جن میں ایک چھوٹی سی دھاری دار چادر تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ کس کو اس کا زیادہ حقدار سمجھتے ہو؟“ تو لوگ خاموش رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ام خالد کو میرے پاس لاؤ“ چنانچہ وہ لائی گئیں، آپ نے انہیں اسے پہنا دیا پھر دوبار فرمایا: ”پہن پہن کر اسے پرانا اور بوسیدہ کرو“ آپ چادر کی دھاریوں کو جو سرخ یا زرد رنگ کی تھیں دیکھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: ”اے ام خالد! ” «سناه سناه» اچھا ہے اچھا ہے ۱؎۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4024]
فوائد ومسائل: نیا کپڑا پہننے والے کو مذکورہ دعا دینا مسنون اور مستحب ہے، اس میں ضمنًا کپڑا پہننے والے کے لئے صحت وعافیت اور لمبی زندگی کی دعا ہے کہ وہ اس سے خوب استفادہ کرے حتی کہ وہ جائے۔ روایت میں مذکور صیغے مونث کے لئے ہیں۔ مذکر کے لئے یوں بھی کہے جا سکتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4024
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5823
5823. سیدہ ام خالد بنت خالد ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کےپاس کچھ کپڑے لائے گئے ان میں ایک چھوٹی سی دھاری دار اونی چادر بھی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم یہ چادر کس کو پہنائیں؟“ صحابہ کرام خاموش رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ام خالد ؓ کو میرے پاس لاؤ۔“ چنانچہ انہیں اٹھا کر لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے وہ چادر اپنے ہاتھ میں لی اور انہیں پہنا کریہ دعا دی: ”اللہ کرے تم اسے خوب پہنو اور پرانا کرو۔“ اس چادر میں سبز یا زرد نقش ونگار تھے آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے ام خالد! یہ نقش ونگار سناہ“ ہیں۔ حبشی زبان میں لفظ ”سناہ“ خوبصورت کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5823]
حدیث حاشیہ: ام خالد حبش ہی میں پیدا ہوئی تھیں وہ حبشی زبان جاننے لگی تھیں، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خوش ہو کر حبشی زبان ہی میں اس کپڑے کی تعریف فرمائی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5823
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5993
5993. حضرت ام خالد بنت سعید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ میں نے زرد رنگ کی قمیض پہن رکھی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ”سنہ سنہ“ کے الفاظ کہے (راوئ حدیث) عبداللہ نے کہا کہ یہ حبشی زبان میں ”خوب“ کے معنی میں ہےام خالد بیان کرتی ہیں کہ میں مہر نبوت سے کھیلنے لگی تو میرے والد گرامی نے مجھے ڈانٹ پلائی لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے کھلینے دو۔“ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تو ایک زمانے تک زندہ رہے، اللہ تعالٰی تیری عمر لمبی کرے تمہاری زندگی دراز ہو۔“ عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ انہوں نے بہت طویل عمر پائی حتٰی کہ لوگوں میں ان کا چرچا ہونے لگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5993]
حدیث حاشیہ: حضرت ام خالد، خالد بن سعید بن عاص اموی کی ماں ہیں۔ حبش میں پیدا ہوئی پھر مدینہ لائی گئی بعد بلوغت حضرت زبیر بن عوام سے ان کی پہلی شادی ہوئی (رضي اللہ عنھا) ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5993
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3071
3071. حضرت اُم خالد بنت خالد بن سعید ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں اپنے والد گرامی کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس وقت میں نے زرد رنگ کی قمیص پہن رکھی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سنہ، سنہ۔“ حبشی زبان میں اس کے معنیٰ ہیں۔ ”اچھا۔“ حضرت اُم خالد ؓ کہتی ہیں، پھر میں مہر نبوت سے کھیلنے لگی تو میرے والد نے مجھے ڈانٹ پلائی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس کو چھوڑدو۔“ پھر فرمایا: ”کرتا پرانا کرو اور اور اسے پہن کر پھاڑو۔ پھر کرتا پرانا کرو اور پھاڑو۔ پھر پرانا کرو اور پھاڑو۔“(آپ نے درازی عمری کی دعا فرمائی۔) حضرت عبد اللہ بن مبارک بیان کرتے ہیں کہ وہ قمیص اتنی دیر تک باقی رہی کہ زبانوں پر اس کا چرچا ہونے لگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3071]
حدیث حاشیہ: ترجمہ باب اس سے ہے نکلا کہ آپﷺ نے سنہ سنہ فرمایا جو حبشی زبان ہے امام خالد ؓ اتنے دنوں زندہ رہی کہ وہ کپڑا پہنتے پہنتے کالا ہو گیا۔ یہ رسول کریمﷺ کی دعا کی برکت تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3071
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3874
3874. حضرت ام خالد بنت خالد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب میں سرزمین حبشہ سے واپس آئی تو اس وقت میں چھوٹی بچی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اوڑھنے کے لیے ایک چادر عنایت فرمائی جس میں نقوش تھے۔ رسول اللہ ﷺ اپنا دست مبارک ان نقوش پر پھیرتے ہوئے فرما رہے تھے: ”یہ چادر اچھی ہے۔ یہ چادر خوبصورت ہے۔“ امام حمیدی ؒ نے کہا ہے کہ سناه کے معنی ”اچھا اور خوبصورت“ کے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3874]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ام خالد ؓ، سیدنا خالد بن سعید کی بیٹی اور خالد بن زبیر بن عوام ؓ کی والدہ ہیں۔ اس لیے وہ ام خالد ؓ بھی ہیں۔ اور بنت خالد بھی۔ 2۔ لفظ سناہ حبشی زبان کا لفظ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہجرت حبشہ کی مناسب سے اس ملک کی زبان کالفظ استعمال فرمایا جس کے معنی خوبصورت اور اچھا کے ہیں۔ 3۔ ان کے والد گرامی حضرت خالد بن سعید بن عاص ؓ نے حبشے کی طرف دوسری ہجرت میں شمولیت کی۔ ام خالد کی پیدائش حبشے میں ہوئی تو اس کا نام (أمة) رکھا گیا۔ انھوں نے ہی اس کی کنیت ام خالد رکھی تھی۔ ان کی والدہ کا نام امینہ بنت خلف ہے۔ (فتح الباري: 239/7) 4۔ ایک روایت میں ہے کہ ام خالد نے کہا: میں نے اس وقت زرد رنگ کی قمیص پہن رکھی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے سنه سنه کے الفاظ استعمال فرمائے۔ (صحیح البخاري، الجھاد، حدیث: 3071) ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چادر اور قمیص دونوں کے متعلق یہ الفاظ استعمال فرمائے ہوں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3874
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5823
5823. سیدہ ام خالد بنت خالد ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کےپاس کچھ کپڑے لائے گئے ان میں ایک چھوٹی سی دھاری دار اونی چادر بھی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم یہ چادر کس کو پہنائیں؟“ صحابہ کرام خاموش رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ام خالد ؓ کو میرے پاس لاؤ۔“ چنانچہ انہیں اٹھا کر لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے وہ چادر اپنے ہاتھ میں لی اور انہیں پہنا کریہ دعا دی: ”اللہ کرے تم اسے خوب پہنو اور پرانا کرو۔“ اس چادر میں سبز یا زرد نقش ونگار تھے آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے ام خالد! یہ نقش ونگار سناہ“ ہیں۔ حبشی زبان میں لفظ ”سناہ“ خوبصورت کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5823]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت ام خالد رضی اللہ عنہا حبشہ میں پیدا ہوئی تھیں اور حبشی زبان جانتی تھیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کر حبشی زبان میں ہی اس کپڑے کی تعریف فرمائی۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس چادر کے سرخ یا زرد نقش و نگار دیکھنے لگے اور فرماتے جاتے: سناہ سناہ، یعنی بہت خوبصورت ہے، بہت خوبصورت ہے۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4024)(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں جب کوئی نیا کپڑا پہنتا تو اسے یوں دعا دی جاتی: ”اللہ کرے تم اسے خوب پرانا کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے بعد تمہیں اور بھی عنایت فرمائے۔ “(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4020)(3) اس حدیث میں کالے رنگ کے کمبل کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام خالد رضی اللہ عنہا کو پہنایا تھا، عنوان سے یہی مطابقت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5823
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5993
5993. حضرت ام خالد بنت سعید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ میں نے زرد رنگ کی قمیض پہن رکھی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ”سنہ سنہ“ کے الفاظ کہے (راوئ حدیث) عبداللہ نے کہا کہ یہ حبشی زبان میں ”خوب“ کے معنی میں ہےام خالد بیان کرتی ہیں کہ میں مہر نبوت سے کھیلنے لگی تو میرے والد گرامی نے مجھے ڈانٹ پلائی لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے کھلینے دو۔“ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تو ایک زمانے تک زندہ رہے، اللہ تعالٰی تیری عمر لمبی کرے تمہاری زندگی دراز ہو۔“ عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ انہوں نے بہت طویل عمر پائی حتٰی کہ لوگوں میں ان کا چرچا ہونے لگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5993]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت ام خالد رضی اللہ عنہما حضرت خالد بن سعید بن عاص اموی کی والدہ ماجدہ ہیں۔ وہ حبشہ میں پیدا ہوئیں اور ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے ہاتھ سے ایک قمیص پہنائی تھی اور فرمایا: اسے خوب پرانی کرو۔ وہ قمیص دیر تک ان کے پاس رہی۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ قمیص عرصۂ دراز ان کے پاس رہی حتی کہ وہ سیا ہو گئیں، یعنی ام خالد رضی اللہ عنہما بہت مدت تک زندہ رہیں حتی کہ ان کی رنگت سیاہ ہو گئی۔ (2) جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو ان کی عمر بہت چھوٹی تھی حتی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت سے کھیلنے لگیں اور آپ نے بطور مزاح سنه سنه کہا۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کسی بچی سے مزاح کرسکتا ہے اگرچہ وہ محرمہ نہ ہو۔ اگر مزاح کرتے وقت نیت میں فتور ہو تو اس سے بچنا چاہیے۔ (3) امام بخاری رحمہ اللہ نے مبنی برحقیقت مزاح پر بوسے کو قیاس کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ چھوٹی بچی سے قولی اور عملی مزاح سے مراد بچی کو اپنے ساتھ مانوس کرنا ہوتا ہے۔ اور بوسہ لینا بھی اسی قسم سے ہے۔ (فتح الباري: 10/522) امام بخاری رحمہ اللہ کا عنوان میں تقبیل کے بعد مزاح کا ذکر کرنا، خاص کے بعد عام ذکر کرنے کی طرح ہے۔ والله أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5993