ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے ابی اسامہ کے واسطے سے بیان کیا۔ انہوں نے عبیداللہ بن عمر سے، انہوں نے خبیب بن عبدالرحمٰن سے، انہوں نے حفص بن عاصم سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کی خرید و فروخت اور دو طرح کے لباس اور دو وقتوں کی نمازوں سے منع فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے بعد سورج نکلنے تک اور نماز عصر کے بعد غروب ہونے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا (اور کپڑوں میں) اشتمال صماء یعنی ایک کپڑا اپنے اوپر اس طرح لپیٹ لینا کہ شرمگاہ کھل جائے۔ اور (احتباء) یعنی ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنے سے منع فرمایا۔ (اور خرید و فروخت میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منابذہ اور ملامسہ سے منع فرمایا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 584]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 584
تشریح: دن اور رات میں کچھ وقت ایسے ہیں جن میں نماز ادا کرنا مکروہ ہے۔ سورج نکلتے وقت اور ٹھیک دوپہر میں اور عصر کی نماز کے بعد غروب شمس تک اور فجر کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک۔ ہاں اگر کوئی فرض نماز قضاء ہو گئی ہو اس کا پڑھ لینا جائز ہے۔ اور فجر کی سنتیں بھی اگر نماز سے پہلے نہ پڑھی جا سکی ہوں تو ان کو بھی بعد جماعت فرض پڑھا جا سکتا ہے۔ جو لوگ جماعت ہوتے ہوئے فجر کی سنت پڑھتے رہتے ہیں وہ حدیث کے خلاف کرتے ہیں۔
دو لباسوں سے مراد ایک «اشتمال صماء» ہے یعنی ایک کپڑے کا سارے بدن پر اس طرح لپیٹ لینا کہ ہاتھ وغیرہ کچھ باہر نہ نکل سکیں اور «احتباء» ایک کپڑے میں گوٹ مار کر اس طرح بیٹھنا کہ پاؤں پیٹ سے الگ ہوں اور شرمگاہ آسمان کی طرف کھلی رہے۔
دو خرید و فروخت میں اوّل بیع منابذہ یہ ہے کہ مشتری یا بائع جب اپنا کپڑا اس پر پھینک دے تو وہ بیع لازم ہو جائے اور بیع ملامسہ یہ کہ مشتری کا یا مشتری بائع کا کپڑا چھو لے تو بیع پوری ہو جائے۔ اسلام نے ان سب کو بند کر دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 584
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:584
حدیث حاشیہ: (1) اس باب میں امام بخاری ؒ نے کل چار احادیث پیش کی ہیں: پہلی اور آخرت حدیث فعل سے متعلق ہے جبکہ دوسری اور تیسری حدیث کا تعلق وقت سے ہے۔ مقصود صرف اوقات مکروہ کا بیان ہے۔ (2) اس آخری حدیث میں چند ایک دوسری چیزوں کے متعلق بھی حکم امتناعی بیان ہوا ہے۔ اشتمال الصماء: اپنے بدن پر اس طرح کپڑا لپیٹ لیا جائے کہ ہاتھ وغیرہ اس میں بند ہوجائیں۔ الاحتباء: گوٹھ مار کر اس طرح بیٹھنا کہ دونوں سرین زمین پر رکھ کر اپنی پنڈلیوں کو کھڑا کردیا جائے۔ ملامسه: دن یا رات کے وقت کپڑے کو صاف ہاتھ لگا کر بیع پختہ کرنا جبکہ اسے کھول کر نہ دیکھا گیا ہو۔ منابذه: ایک دوسرے کی طرف کپڑا پھینک کر بیع پختہ کرلینا۔ واضح رہے کہ اشتمال اور احتباء سے متعلق پوری تفصیل کتاب اللباس اور ملامسہ اور منابذہ کے متعلق وضاحت کتاب البیوع میں آئے گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 584
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 489
´تجارت دھوکا دہی کا نام نہیں ہے` «. . . عن ابى هريرة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الملامسة والمنابذة . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملامسہ اور منابذہ (دو قسم کے سودوں) سے منع فرمایا ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 489]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5821، من حديث مالك به، ورواه مسلم 1511، من حديث ابي الزناد به مختصراً جداً]
تفقه: : ➊ ملامسہ اس سودے (بیع) کو کہتے ہیں کہ آدمی ایک کپڑا کو چھو کر خرید لے اور اسے کھول کر نہ دیکھے۔ اسی طرح اندھیرے میں اور دیکھے بغیر صرف ہاتھ لگا کر خریدے ہوئے سودے کو ملامسہ کہتے ہیں۔ چونکہ اس سودے میں ایک فریق کے نقصان کا اندیشہ ہے اس لئے یہ جائز نہیں ہے۔ ➋ منابذہ اس سودے کو کہتے ہیں کہ دکاندار اپنا کپڑا (وغیرہ) گاہک کی طرف پھینک دے جسے وہ (گاہک) کھول کر نہ دیکھ سکے اور سودے کا پابند ہو جائے۔ ایسے سودے زمانہ جاہلیت میں رائج تھے جن میں ایک فریق کا نقصان ہو جاتا تھا لہٰذا اسلام نے ایسی دکانداری سے منع کر دیا ہے۔ ➌ دین اسلام مکمل اور کامل دین ہے جس میں زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں ہدایات موجود ہیں۔ ➍ تجارت دھوکا دہی کا نام نہیں ہے بلکہ صداقت و امانت سے عبارت ہے۔ ➎ اپنی بیوی اور زر خرید لونڈیوں کے علاوہ تمام لوگوں سے شرمگاہ کا چھپانا فرض ہے۔ ➏ اسلام شرم و حیا کا خاص خیال رکھتا ہے اور یہی دین فطرت ہے۔ ➐ نماز میں کندھا ننگا کرنا جائز نہیں ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 359، وصحيح مسلم 516، دارالسلام: 1151] ➑ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا جب آپ امیر المؤمنین تھے، آپ کے کندھوں کے درمیان کُرتے پر اوپر نیچے تین پیوند لگے ہوئے تھے۔ [الموطأ النسخة الباكستانيه ص711، واللفظ له دوسرا نسخه 2/918 ح1771، وسنده صحيح]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 99
حافظ زبير على زئي رحمه الله، ردحدیث اشکال، صحیح بخاری 368
«حدثنا قبيصة بن عقبة، قال: حدثنا سفيان، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، قال:" نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيعتين، عن اللماس والنباذ، وان يشتمل الصماء، وان يحتبي الرجل في ثوب واحد".»
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، جو ابوالزناد سے نقل کرتے ہیں، وہ اعرج سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کی بیع و فروخت سے منع فرمایا۔ ایک تو چھونے کی بیع سے، دوسرے پھینکنے کی بیع سے اور اشتمال صماء سے اور ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنے سے۔ [صحيح بخاري 368]
سفیان ثوری رحمہ اللہ صحیح بخاری کی یہ حدیث «عن» سے روایت کر رہے ہیں۔
بعض لوگ عن والی روایت پر اعتراض کرتے ہیں کہتے ہیں، سماع کی تصریح یا متابعت ثابت کریں۔ (8) صحیح بخاری باب مایستر من العورۃ ص53 (ح 368) اس میں محمد بن یحییٰ بن حبان نے سفیان کی متابعت کر رکھی ہے۔ صحیح بخاری کتاب البیوع باب بیع المنابذۃ (ح 2145) «حدثنا قتيبة، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا ايوب، عن محمد، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال:" نهي عن لبستين، ان يحتبي الرجل فى الثوب الواحد ثم يرفعه على منكبه، وعن بيعتين اللماس والنباذ".»
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ دو طرح کے لباس پہننے منع ہیں۔ کہ کوئی آدمی ایک ہی کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھے، پھر اسے مونڈے پر اٹھا کر ڈال لے (اور شرمگاہ کھلی رہے) اور دو طرح کی بیع سے منع کیا ایک بیع ملامسۃ سے اور دوسری بیع منابذہ سے۔
حوالہ: فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) جلد 2، ص 315
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 315
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4080
´جسم پر اس طرح کپڑا لپیٹنا کہ دونوں ہاتھ اندر ہوں منع ہے۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قسم کے لباس سے منع فرمایا ہے ایک یہ کہ آدمی اس طرح گوٹ مار کر بیٹھے کہ اس کی شرمگاہ آسمان کی طرف کھلی ہو اس پر کوئی کپڑا نہ ہو، دوسرے یہ کہ اپنا کپڑا سارے بدن پر اس طرح لپیٹ لے کہ ایک طرف کا حصہ کھلا ہو، اور کپڑا اٹھا کر کندھے پر ڈال لیا ہو۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4080]
فوائد ومسائل: ان صورتوں کے ناجائزاور حرام ہونےکی وجہ سے عریانی ہے، دوسری صورت کی ایک توجیہ ہوسکتی ہے کہ بعض اوقات متکبرقسم کے لوگ اپنی چادروں کے کنارے اپنے کندھوں پر ڈال کر اترتے ہوئے چلتے ہیں تو ان کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4080
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3560
´ممنوع لباس کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کے پہناوے سے منع فرمایا: ” «اشتمال صماء» سے اور ایک کپڑے میں «احتباء» سے، کہ شرمگاہ آسمان کی طرف کھلی رہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3560]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (اشتمال الصماء) اور (احتباء) کی وضاحت گزشتہ حدیث کے ترجمہ اور فوائد میں ہو چکی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3560
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1758
´بدن کو پورے طور پر کپڑا سے لپیٹ لینا اور چوتڑ کے بل کپڑا لپیٹ کر بیٹھنا دونوں منع ہے۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو لباس سے منع فرمایا: ”ایک صماء، اور دوسرا یہ کہ کوئی شخص خود کو کپڑے میں اس طرح لپیٹ لے کہ اس کی شرمگاہ پر اس کپڑے کا کوئی حصہ نہ رہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1758]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اہل لغت کے نزدیک صماء یہ ہے کہ آدمی چادرسے جسم کو اس طرح لپیٹ لے کہ بوقت ضرورت ہاتھ بھی نہ نکال سکے، فقہاء کے نزدیک صماء یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے جسم پر ایک ہی چادرلپیٹے اوراس کا ایک کنارہ اٹھا کراپنے کندھے پرڈال لے جس سے اس کی شرم گاہ کھل جائے، اور احتباء یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے دونوں پاؤں کو کھڑا کرکے چوتڑ کے بل بیٹھ جائے اور اوپر سے کپڑا اس طرح لپیٹے کہ شرم گاہ پر کچھ نہ ہو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1758
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5821
5821. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے دو قسم کے لباس سے منع فرمایا ہے: ایک یہ کہ ایک ہی کپڑے سے اپنی کمر اور پنڈلی کو ملاکر باندھ لے اور اس کی شرمگاہ پر کوئی کپڑا نہ ہو اور دوسرا یہ کہ کوئی شخص ایک کپڑے کو اس طرح جسم پر لپیٹ لے کہ دوسری طرف کپڑے کا کوئی حصہ نہ ہو۔ اسی طرح آپ نے بیع ملامسہ اور بیع منابذہ سے بھی منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5821]
حدیث حاشیہ: عرب جاہلیت میں مجلس میں بیٹھنے کا یہ بھی ایک طریقہ تھا۔ بیٹھنے کی اس ہیئت میں عموماً شرمگاہ کھل جایا کرتی تھی کیونکہ جسم پر کپڑا صرف ایک ہی چادر کی صورت میں ہوتا تھا اور اسی سے کمر اور پنڈلی میں اور کمر لپیٹ کر دونوں کو ایک ساتھ باندھ لیتے تھے۔ یہ صورت ایسی ہوتی تھی کہ شرمگاہ کی ستر کا اہتمام بالکل باقی نہیں رہتا تھا اور بیٹھنے والا بے دست وپا اپنی اسی ہیئت پر بیٹھنے پر مجبور تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5821
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2145
2145. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ دوقسم کے لباسوں سے منع کیا گیا ہے۔ ایک تویہ کہ صرف ایک ہی کپڑے میں کوئی آدمی احتباء کرے پھر اسے کندھوں تک اٹھالے۔ اور دوقسم کی خریدو فروخت سے روکا گیا ہے۔ ایک ہاتھ لگادینے سے بیع پختہ کر لینا اور دوسری صرف پھینک دینے کو بیع کے قائم مقام قراردے لینا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2145]
حدیث حاشیہ: اس روایت میں دوسرے لباس کا ذکر نہیں کیا۔ وہ اشتمال صما ہے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے یعنی ایک ہی کپڑا سارے بدن پر اس طرح لپیٹنا کہ ہاتھ وغیرہ کچھ باہر نہ نکل سکیں۔ نسائی کی روایت میں ملامسۃ کی تفسیر یوں مذکور ہے کہ ایک آدمی دوسرے سے کہے کہ میں اپنا کپڑا تیرے کپڑے کے عوض بیچتا ہوں اور کوئی دوسرے کا کپڑا نہ دیکھے صرف چھوئے، اور بیع منابذہ یہ ہے کہ مشتری اور بائع میں یہ ٹھہرے کہ جو میرے پاس ہے وہ میں تیری طرف پھینک دوں گا اور جو تیرے پاس ہے وہ تومیری طرف پھینک دے۔ بس اسی شرط پر بیع ہو جائے اور کسی کو معلوم نہ ہو کہ دوسرے کے پاس کتنا اور کیا مال ہے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2145
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:368
368. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے دو قسم کی خریدوفروخت سے منع فرمایا: ایک صرف چھونے سے اور دوسری جو صرف پھینکنے سے پختہ ہو جائے، نیز آپ نے اشتمال صماء اور ایک کپڑے میں گوٹھ مار کر بیٹھنے سے بھی منع فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:368]
حدیث حاشیہ: 1۔ دور جاہلیت میں خرید و فروخت کے دو ایسے طریقے رائج تھے جن میں جوئے اور دھوکے کا شائبہ تھا۔ اس لیے شریعت نے ان سے منع فرمایا۔ ایک ملامسہ اور دوسرا منابذہ، بیع ملامسہ کی صورت یہ تھی کہ کپڑے کی دوکان پر فروخت کنندہ اور خریدار کے درمیان زبانی بات چیت طے ہو گئی، قیمت کا بھی فیصلہ ہو گیا، اب خریدار نے اپنی آنکھیں بند کر کے اپنا ہاتھ جس تھان پر رکھ دیا وہی تھان مقرر شدہ قیمت میں اس کا ہو گیا۔ کسی کے لیے خیارمجلس، خیار عیب یا خیار رؤیت نہیں ہوتا تھا۔ شریعت نے اس سے منع کردیا۔ اسی طرح منابذہ کا یہ طریقہ تھا کہ زبانی قیمت طے ہونے کے بعد فروخت کنندہ نے آنکھ بند کر کے جو تھان خریدارکی طرف پھینک دیا وہی مشتری کا ہو گیا، خواہ وہ اعلیٰ قسم کا ہو یا گھٹیا قسم کا۔ اسے بھی شریعت نے حرام قراردیا ہے۔ عنوان سے ان کا کوئی تعلق نہیں، اس لیے ان سے متعلقہ مباحث کو ہم کتاب البیوع میں بیان کریں گے۔ 2۔ اشتمال صماء کو سخت بکل کہتے ہیں جس کی وضاحت پہلی حدیث میں ہو چکی ہے اور (اِحتبِاَء) یہ ہے کہ دونوں سرین زمین پر رکھ کر اپنی پنڈلیاں کھڑی کر کے اس طرح بیٹھنا کہ عضو مستور ننگا ہو جائے۔ اس حدیث میں اگرچہ مطلق طور پر گوٹھ مار کر بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے تاہم اس کی وضاحت ایک حدیث میں اس طرح ہے کہ اس کی شرم گاہ آسمان کی طرف کھلی رہے۔ (صحیح البخاری، مواقیت الصلاة، حدیث: 584) حدیث کے اس جز کا عنوان سے تعلق ہے کہ اس طرح ننگا ہو کر بیٹھنا شریعت میں ناپسندیدہ اور ناجائز کا م ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 368
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2145
2145. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ دوقسم کے لباسوں سے منع کیا گیا ہے۔ ایک تویہ کہ صرف ایک ہی کپڑے میں کوئی آدمی احتباء کرے پھر اسے کندھوں تک اٹھالے۔ اور دوقسم کی خریدو فروخت سے روکا گیا ہے۔ ایک ہاتھ لگادینے سے بیع پختہ کر لینا اور دوسری صرف پھینک دینے کو بیع کے قائم مقام قراردے لینا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2145]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں بھی بیع ملامسہ سے منع کیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت پہلی حدیث میں ہوچکی ہے۔ (2) اس حدیث میں دو قسم کے لباس سے منع کیا گیا ہے،ان میں سے صرف ایک کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے،وہ احتباء ہے۔ دوسرا لباس اشتمال الصماء ہے جس کا اس حدیث میں ذکر نہیں ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ انسان کپڑا اس طریقے سے اوڑھے کہ اس کے ہاتھ اس میں بالکل بند ہوجائیں۔ اس میں انسان تھوڑی سی ٹھوکر لگنے سے گر پڑتا ہے۔ چونکہ یہ پر خطر لباس ہے،اس لیے منع کیا گیا ہے۔ احتباء یہ ہے کہ ایک چادر بطور تہبند پہن لی جائے اور پھر اس کا کچھ حصہ کندھوں پر ڈال لیا جائے۔ اس میں کیونکہ برہنہ ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے،اس لیے یہ بھی منع ہے۔ اس کی مکمل بحث کتاب اللباس میں آئے گی۔ إن شاء الله.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2145