اور ابوسلمہ سے روایت ہے انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنے بیمار اونٹوں کو کسی کے صحت مند اونٹوں میں نہ لے جائے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پہلی حدیث کا انکار کیا۔ ہم نے (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) عرض کیا کہ آپ ہی نے ہم سے یہ حدیث نہیں بیان کی ہے کہ چھوت یہ نہیں ہوتا پھر وہ (غصہ میں) حبشی زبان بولنے لگے۔ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ اس حدیث کے سوا میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اور کوئی حدیث بھولتے نہیں دیکھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 5771]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5771
حدیث حاشیہ: راوی کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث بھول گئے اس لیے انہوں نے انکار کیا بلکہ انکار کی وجہ شاگرد کا حدیث کو تعارض کی شکل میں پیش کرنا تھا۔ ان کو اس پر ناراضگی ہوئی کیونکہ یہ دونوں احادیث دو الگ الگ مضامین پر شامل ہیں اور ان میں تعارض کا کوئی سوال نہیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ ان معاملات میں عام لوگوں کے ذہنوں میں جو وہم پیدا ہوتا ہے اسی سے بچنے کے لیے یہ حکم حدیث میں ہے کہ تندرست جانوروں کو بیمار جانوروں سے الگ رکھو کیونکہ اگر ایک ساتھ رکھنے میں تندرست جانور بھی بیمار ہو گئے تو یہ وہم پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ سب کچھ اس بیمار جانور کی وجہ سے ہوا ہے اور اس طرح کے خیالات کی شریعت حقہ نے تردید کی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5771
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5771
حدیث حاشیہ: (1) راوی ابو سلمہ کا یہ خیال محل نظر ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھولنے کی وجہ سے حدیث کا انکار کیا بلکہ انکار کی وجہ ان کا حدیث کو تعارض کی شکل میں پیش کرنا تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس پر ناراضی ہوئی تو انہوں نے حبشی زبان میں اپنی ناراضی کا اظہار کیا، حالانکہ احادیث میں تعارض نہیں بلکہ دونوں الگ الگ مضمون پر مشتمل ہیں۔ پہلی حدیث سے جاہلوں کے اس عقیدے کی نفی کرنا مقصود ہے کہ بیماری طبعی طور پر ایک سے دوسرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت سے حصول ضرر کی نفی نہیں ہے اور دوسری حدیث میں بیمار اونٹ کو صحت مند اونٹوں کے پاس لے جانے کی ممانعت اس لیے ہے کہ کم علم لوگ فضول اوہام میں مبتلا ہو جائیں کہ صحت مند اونٹ، بیمار اونٹ کی وجہ سے بیمار ہو گئے، اس طرح وہ عدوٰی کے قائل ہو جائیں گے، حالانکہ حدیث میں اس کی ممانعت ہے۔ (2) یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھولنے کی وجہ سے انکار کیا ہو جیسا کہ ابو سلمہ نے کہا ہے۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کیونکہ بھول جانا بشری تقاضا ہے لیکن حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تھی تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس کے بعد کوئی حدیث نہیں بھولا ہوں۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 119)(3) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے جہلاء کے اس عقیدے کی نفی کی ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی کھوپڑی سے ایک زہریلا کیڑا نکلتا ہے جو مسلسل آواز دیتا ہے: مجھے پلاؤ، مجھے پلاؤ۔ جب مقتول کا بدلہ لے لیا جائے تو وہ غائب ہو جاتا ہے۔ اس عقیدے کی کوئی حیثیت نہیں۔ بعض لوگوں نے کہا: عربوں کے توہمات میں سے ایک یہ تھا کہ اگر کوئی قتل ہو جائے اور اس کا بدلہ نہ لیا جائے تو مردے کی کھوپڑی سے ایک الو برآمد ہوتا ہے جو اس کے اوپر منڈلاتا رہتا ہے اور آواز دیتا ہے: پیاس، پیاس، اگر مقتول کا بدلہ لے لیا جائے تو وہ مطمئن ہو جاتا ہے، اس وہم کی بنیاد پر وہ لوگ جیسے بھی بن پڑتا بدلہ لینے پر اصرار کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وہم کی تردید فرمائی ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5771