الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ
کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
34. بَابُ الشَّرْطِ فِي الرُّقْيَةِ بِقَطِيعٍ مِنَ الْغَنَمِ:
34. باب: سورۃ الفاتحہ سے دم جھاڑ کرنے میں (بکریاں لینے کی) شرط لگانا۔
حدیث نمبر: 5737
حَدَّثَنِي سِيدَانُ بْنُ مُضَارِبٍ أَبُو مُحَمَّدٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ الْبَصْرِيُّ هُوَ صَدُوقٌ يُوسُفُ بْنُ يَزِيدَ الْبَرَّاءُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَخْنَسِ أَبُو مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرُّوا بِمَاءٍ فِيهِمْ لَدِيغٌ أَوْ سَلِيمٌ، فَعَرَضَ لَهُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَاءِ، فَقَالَ: هَلْ فِيكُمْ مِنْ رَاقٍ؟ إِنَّ فِي الْمَاءِ رَجُلًا لَدِيغًا أَوْ سَلِيمًا، فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ عَلَى شَاءٍ، فَبَرَأَ، فَجَاءَ بِالشَّاءِ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَكَرِهُوا ذَلِكَ، وَقَالُوا: أَخَذْتَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا، حَتَّى قَدِمُوا الْمَدِينَةَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخَذَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ".
ہم سے سیدان بن مضارب ابو محمد باہلی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعشر یوسف بن یزید البراء نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن اخنس ابو مالک نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ چند صحابہ ایک پانی سے گزرے جس کے پاس کے قبیلہ میں بچھو کا کاٹا ہوا (لدیغ یا سلیم راوی کو ان دونوں الفاظ کے متعلق شبہ تھا) ایک شخص تھا۔ قبیلہ کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کیا آپ لوگوں میں کوئی دم جھاڑ کرنے والا ہے۔ ہمارے قبیلہ میں ایک شخص کو بچھو نے کاٹ لیا ہے چنانچہ صحابہ کی اس جماعت میں سے ایک صحابی اس شخص کے ساتھ گئے اور چند بکریوں کی شرط کے ساتھ اس شخص پر سورۃ فاتحہ پڑھی، اس سے وہ اچھا ہو گیا وہ صاحب شرط کے مطابق بکریاں اپنے ساتھیوں کے پاس لائے تو انہوں نے اسے قبول کر لینا پسند نہیں کیا اور کہا کہ اللہ کی کتاب پر تم نے اجرت لے لی۔ آخر جب سب لوگ مدینہ آئے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان صاحب نے اللہ کی کتاب پر اجرت لے لی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو ان میں سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 5737]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5737 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5737  
حدیث حاشیہ:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احتیاط کو ملاحظہ کیا جائے کہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تحقیق نہ کی بکریوں کو ہاتھ نہیں لگایا ہر مسلمان کی یہی شان ہونی چاہیئے خاص طور پر دین وایمان کے لیے جس قدر احتیاط سے کام لیا جائے کم ہے مگر ایسا احتیاط کرنے والے آج عنقا ہیں الا ما شاءاللہ۔
حضرت مولان وحیدالزماں فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی بنا پر تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کا مہر تعلیم قرآن پر کردیا تھا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5737   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5737  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دم جھاڑ کرنے پر اجرت لینا جائز ہے بلکہ پہلے سے طے کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
لیکن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی احتیاط قابل ملاحظہ ہے کہ جب تک انہیں اس کے حلال یا جائز ہونے کا علم نہیں ہوا بکریوں کو ہاتھ نہیں لگایا، البتہ دم جھاڑ کے لیے فارغ ہو جانا اور اسے ذریعۂ معاش بنا لینا انتہائی مذموم ہے۔
یہ طریقہ سلف صالحین کے ہاں غیر معروف ہے اور یہ دم کرنے والے، کروانے والے کو برائی اور فساد کی طرف دھکیل دیتا ہے۔
جس طرح کسی بزرگ سے دعا کروانا تو جائز ہے لیکن اس بزرگ کا اس کام کے لیے فارغ ہو کر بیٹھ رہنا تاکہ لوگ اس کے پاس آ کر دعا کرائیں درست نہیں۔
ایسا کرنے سے کئی ایک مفاسد کے جنم لینے کا اندیشہ ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5737