ہم سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے سعید بن حارث نے اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ انصار کے ایک صحابی کے یہاں تشریف لے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے ایک رفیق بھی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفیق نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے سلام کا جواب دیا۔ پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر نثار ہوں یہ بڑی گرمی کا وقت ہے وہ اپنے باغ میں پانی دے رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس مشک میں رات کا رکھا ہوا پانی ہے (تو وہ پلا دو) ورنہ ہم منہ لگا کر پی لیں گے۔ وہ صاحب اس وقت بھی باغ میں پانی دے رہے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس مشک میں رات کا رکھا ہوا باسی پانی ہے پھر وہ چھپر میں گئے اور ایک پیالے میں باسی پانی لیا پھر اپنی ایک دودھ دینے والی بکری کا دودھ اس میں نکالا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیا پھر وہ دوبارہ لائے اور اس مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَشْرِبَةِ/حدیث: 5621]
عندك ماء بات هذه الليلة في شنة وإلا كرعنا قال والرجل يحول الماء في حائطه قال فقال الرجل يا رسول الله عندي ماء بائت فانطلق إلى العريش قال فانطلق بهما فسكب في قدح ثم حلب عليه من داجن له قال فشرب رسول الله ثم شرب الرجل الذي جاء معه
عندك ماء بات في شن فاسقنا وإلا كرعنا قال عندي ماء بات في شن فانطلق وانطلقنا معه إلى العريش فحلب له شاة على ماء بات في شن فشرب ثم فعل مثل ذلك بصاحبه الذي معه
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5621
حدیث حاشیہ: حدیث میں حوض کا ذکر نہیں ہے مگر دستور یہ ہے کہ باغ میں جب پانی کنویں سے نکالا جائے تو ایک حوض میں جمع ہو کر آگے درختوں میں جاتا ہے یہاں بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ وہ باغ والا اپنے درختوں کو پانی دے رہا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5621
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5621
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5621 کا باب: «بَابُ الْكَرْعِ فِي الْحَوْضِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمة الباب میں حوض کا ذکر فرمایا ہے، لیکن تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس میں حوض کا ذکر نہیں ہے، لہٰذا باب سے حدیث کی مناسبت کس طرح سے ممکن ہو گی؟
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «وانما قيد فى الترجمة بالحوض لما بينته هناك أن جابرة أعاد قوله: ”وهو يحول بالماء“ في أثناء مخاطبة النبى صلى الله عليه وسلم الرجل مرتين، وأن الظاهر أنه كان ينقله من أسفل البئر إلى اعلاه، فأنه كان هناك حوض يجمعه فيه ثم يحوله من جانب الي جانب.»[فتح الباري: 75/11] ”ترجمة الباب کو حوض کے ساتھ مقید کیا ہے کیونکہ وہاں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا تھا کہ قوله «وهو يحول الماء» کا ان کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اثنائے مخاطب دو مرتبہ اعادہ کیا اور وہ بظاہر کنویں کی تہہ سے اوپر کی جانب منتقل کر رہا تھا، گویا وہاں کوئی حوض تھا جس میں پانی جمع کرتے پھر وہاں سے باغ کے چاروں طرف لگاتے تھے۔“
اور یہ بات معروف ہے کہ عموماً «كرع» کی ضرورت حوض وغیرہ میں پیش آتی ہے، اگرچہ حدیث میں مطلقاً «كرع» کا ذکر ہے لیکن چونکہ اس کا وقوع عموماً حوض وغیرہ کے پاس ہوتا ہے اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے لوگوں کی عادت اور ان کے فعل کے عموی وقوع کے پیش نظر ترجمته الباب میں «في الحوض» کا ذکر فرمایا ہے۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5621
حدیث حاشیہ: (1) كرع کے متعدد معانی کتب لغت میں منقول ہیں۔ كراع الارض اس گڑھے کو کہتے ہیں جہاں بارش وغیرہ کا پانی جمع ہو جاتا ہے۔ پہاڑ یا پتھریلے میدانوں سے نکلنے والی پانی کو بھی کراع کہا جاتا ہے۔ كرع القوم کے معنی ہیں کہ لوگوں کو بارش وغیرہ کا جمع شدہ پانی مل گیا جو انہوں نے استعمال کیا۔ اس حدیث میں كرعنا کے یہی معنی مراد ہو سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا: ”اگر تمہارے پاس ایسا پانی ہو جو رات بھر سے مشکیزے میں ہے تو لے آؤ، ورنہ ہم حوض سے جمع شدہ پانی پی لیتے ہیں۔ “ کرع کے ایک معنی برتن یا ہاتھ استعمال کیے بغیر منہ سے پانی پینا بھی ہیں۔ یہ معنی بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ اس مفہوم کے اعتبار سے بوقت ضرورت اس طرح پانی پینے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ (2) حدیث میں اگرچہ حوض کا ذکر نہیں ہے، تاہم حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق دو دفعہ کہا ہے کہ وہ اپنے باغ کو پانی دے رہا تھا۔ عام دستور کے مطابق پہلے کنویں سے پانی نکالا جاتا ہے اور اسے جمع کیا جاتا ہے، پھر اسے درختوں میں لگایا جاتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہو گا پہلے وہ کنویں سے پانی نکالتا ہو گا، پھر جمع کیا ہوا پانی آگے درختوں میں لگاتا ہو گا۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5621
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3724
´نہر سے منہ لگا کر پینے کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص ایک انصاری کے پاس آئے وہ اپنے باغ کو پانی دے رہا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہارے پاس مشکیزہ میں رات کا باسی پانی ہو تو بہتر ہے، ورنہ ہم منہ لگا کر نہر ہی سے پانی پی لیتے ہیں“ اس نے کہا: نہیں بلکہ میرے پاس مشکیزہ میں رات کا باسی پانی موجود ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3724]
فوائد ومسائل: فائدہ: (کرع) کے متعدد معنی ہیں۔ (کراع) انسان کی پنڈلی یا جانور کے اگلے پچھلے پائوں کے اوپر گھنٹے تک کے حصے کو کہتے ہیں۔ حافظ ابن حجر نے ابن التین کے حوالے سے ابو عبد الملک سے نقل کیا ہے۔ کہ اس کے معنی دونوں ہاتھوں سے پانی پینا ہیں۔ ابن تین نے اسے اہل لغت کے خلاف قرار دیا ہے۔ لیکن (کراع) کے اصل معنی کے حوالے سے یہ مفہوم غلط نہیں۔ (کراع الارض) زمین کے کناے کو کہتے ہیں۔ جہاں گہرا ہونے کی وجہ سے بارش کا صاف پانی جمع ہوجاتا ہے۔ (کراع) پہاڑ یا پتھریلے میدانوں سے نکلنے والے پانی کو بھی کہتے ہیں۔ (کرع القوم) یا (أکر ع القوم) کے معنی ہیں۔ کہ لوگوں کو بارش وغیرہ کا جمع شدہ پانی مل گیا۔ جو انہوں نے استعمال کیا۔ (لسان العرب۔ کرع) یہاں یہی معنی مراد ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انصاری سے فرمایا۔ اگر تمہارے پاس ایسا پانی ہو جو رات بھر سے مشکیزے میں ہے۔ (تو لے آئو) ورنہ ہم حوض سے جمع شدہ پانی پی لیتے ہیں۔ (کرع) کے ایک معنی برتن یا ہاتھ استعمال کئے بغیر جانوروں کی طرح منہ سے پانی پینا بھی ہیں۔ بہت سے مترجمین نے اس حدیث کا ترجمہ اس طرح کیا ہے۔ امام نووی نے بھی ریاض الصالحین (باب جواز الشرب من جمیع الأواني۔ ۔ ۔ )میں اس کے یہی معنی بیان کیے ہیں۔ اس لئے اسے بھی غلط نہیں کہا جا سکتا۔ اور اس مفہو م کے اعتبار سے بوقت ضرورت اس طرح پانی پینے کا جواز کا اثبات ہوتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3724
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3432
´پانی چلو سے پینے اور منہ لگا کر پینے کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے ایک شخص کے پاس تشریف لے گئے، وہ اپنے باغ میں پانی دے رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”اگر تمہارے پاس مشک میں باسی پانی ہو تو ہمیں پلاؤ، ورنہ ہم بہتے پانی میں منہ لگا کر پئیں گے، اس نے جواب دیا: میرے پاس مشک میں باسی پانی ہے، چنانچہ وہ اور اس کے ساتھ ساتھ ہم چھپر کی طرف گئے، تو اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر بکری کا دودھ دوھ کر اس باسی پانی میں ملایا جو مشک میں رکھا ہوا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیا، پھر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الأشربة/حدیث: 3432]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) بہتے پانی کو منہ لگا کر پی لیناجائز ہے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ ہاتھوں میں یا برتن میں لے کر پیے۔
(2) مہمان کو عمدہ چیز پیش کرنی چاہیے۔
(3) رات کا رکھا ہوا پانی ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ گرمی کے موسم میں ٹھنڈا پانی زیادہ مرغوب ہوتا ہے۔
(4) رات کا پانی پینا درست ہے۔ بشرط یہ کہ احتیاط سے ڈھانپ کر یا مشکیزے وغیرہ میں محفوظ رکھا گیا ہو۔
(5) شن پرانی مشک کو کہتے ہیں۔ اس میں پانی زیادہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔
(6) اس موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ (حاشہ سنن ابن ماجہ از وحید الزمان خان رحمۃ اللہ علیہ)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3432
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5613
5613. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک اںصاری کے پاس تشریف لے گئے اور آپ کےساتھ آپ کے ایک رفیق (حضرت ابوبکر صدیق ؓ) بھی تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر تمہارے پاس مشکیزے میں رات کا باسی پانی ہے تو (ہمیں پلاؤ) ہم اس سے منہ لگا کر پی لیتے ہیں۔“ حضرت جابر ؓ نے کہا: وہ انصاری اپنے باغ میں پودوں کو پانی دے رہا تھا اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس رات کا پانی موجود ہے آپ میری جھونپڑی میں تشریف لے جائیں، چنانچہ وہ ان دونوں کو وہاں لے گیا پھر اس پر دودھ دوہا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اسے نوش فرمایا: پھر آپ کے رفیق نے اس سے پیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5613]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ انصاری کے پاس جو پانی تھا وہ برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔ اس نے اس پانی پر بکری کا دودھ دوہا تاکہ اس کی ٹھنڈک گرم دودھ سے معتدل ہو جائے، پھر خالص پانی پیش کرنے کے بجائے ضیافت کے طور پر دودھ کی ملاوٹ کی۔ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گرم گرم دودھ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اس میں ٹھنڈا پانی ڈالا تھا تاکہ دودھ کی گرمی اس پانی سے معتدل ہو جائے۔ (صحیح البخاري، في اللقطة، حدیث: 2439)(2) واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی فاضل بزرگ اپنے کسی عقیدت مند کے ہاں قصد کر کے جا سکتا ہے، ایسا کرنا چاہیے تاکہ عقیدت مندوں کی حوصلہ افزائی ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5613