ہم سے محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسامہ بن حفص مدنی نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ(گاؤں کے) کچھ لوگ ہمارے یہاں گوشت (بیچنے) لاتے ہیں اور ہمیں معلوم نہیں کہ انہوں نے اس پر اللہ کا نام بھی (ذبح کرتے وقت) لیا تھا یا نہیں؟ آپ نے فرمایا کہ تم ان پر کھاتے وقت اللہ کا نام لیا کرو اور کھا لیا کرو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ یہ لوگ ابھی اسلام میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اس کی متابعت علی نے دراوردی سے کی اور اس کی متابعت ابوخالد اور طفاوی نے کی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ/حدیث: 5507]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5507
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ ذبیحے پر بسم اللہ پڑھنا ضروری نہیں کیونکہ اگر ضروری ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو گوشت کھانے کی اجازت نہ دیتے لیکن یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ اعراب اگرچہ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے لیکن وہ بسم اللہ کے پڑھنے سے جاہل نہ تھے۔ عین ممکن ہے کہ وہ بسم اللہ پڑھ کر ہی ذبح کرتے ہوں لیکن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے متعلق شبہ کا اظہار کیا کہ شاید وہ بسم اللہ نہ پڑھتے ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا شبہ دور فرمایا کہ مسلمان کے متعلق اچھا گمان رکھنا چاہیے۔ جب وہ مسلمان ہیں تو یقیناً وہ بسم اللہ پڑھتے ہوں گے، البتہ تم اپنے شبہے کو دور کرنے کے لیے بسم اللہ پڑھ لیا کرو۔ اس سلسلے میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے: ”مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے، خواہ وہ اللہ کا نام لے یا نہ لے۔ “ لیکن یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔ (إرواء الغلیل: 169/8، رقم: 2537، و فتح الباري: 787/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5507
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1151
´شکار اور ذبائح کا بیان` سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ کچھ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں جس کے متعلق ہمیں معلوم نہیں کہ وہ گوشت کس طرح کا ہوتا ہے آیا اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہوتا ہے یا نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تم اس پر اللہ کا نام لو اور کھا لو۔“(بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1151»
تخریج: «أخرجه البخاري، الذبائح، باب ذبيحة الأعراب ونحوهم، حديث:5507.»
تشریح: 1. اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جب تک حتمی اور یقینی طور پر کسی ذبیحے کے بارے میں معلوم نہ ہو جائے کہ اس پر بسم اللہ نہیں پڑھی گئی اور وہ حرام ہے‘ اس وقت تک محض شبہات کی بنا پر اسے حرام قرار نہیں دینا چاہیے بالخصوص جبکہ وہ ذبیحہ کسی مسلمان بھائی کا ہو۔ 2. اہل کتاب کے بارے میں اگر یقین ہو کہ اس نے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا ہے‘ مثلاً: خود ذبح کرتے دیکھا ہے یا کسی بااعتماد مسلمان نے دیکھا ہے تو اہل کتاب کے اس شخص کا ذبح کیا ہوا بھی درست ہے۔ دوسرے غیر مسلموں کا ذبح کیا ہوا جائز نہیں۔ واللّٰہ أعلم۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1151