ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے اسی طرح روایت کیا البتہ اس روایت میں یہ لفظ زیادہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا کہ تمہارے پاس اس کا کچھ گوشت بچا ہوا ہے یا نہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ/حدیث: 5491]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5491
حدیث حاشیہ: ان جملہ احادیث کے لانے کا مقصد یہ بتلانا ہے کہ شکار کو مشغلہ کے طور پر اختیار کرنا جائز ہے مگر یہ مشغلہ ایسا نہ ہو کہ فرائض اسلامیہ کی ادائیگی میں سستی کرنے کا سبب بن جائے۔ اس صورت میں یہ مشغلہ بہتر نہ ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5491
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5491
حدیث حاشیہ: شکار کھیلنے والا انسان آزاد ہوتا ہے۔ نماز باجماعت سے محرومی کے علاوہ علماء اور نیک لوگوں کی صحبت سے بھی محروم رہتا ہے۔ اس کا نتیجہ غفلت، بے رحمی اور قساوت قلب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جو خسارے اور گھاٹے کا سودا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں شکار کے احکام بیان کیے ہیں وہاں آخر میں فرمایا ہے: ”اللہ سے ڈرتے رہو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ “ اس لیے حسب طلب و ضرورت شکار کرنا اور اس کی تلاش میں نکلنا معیوب نہیں، البتہ معیوب یہ امر ہے کہ انسان دینی اور دنیوی فرائض سے غافل ہو جائے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5491
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 406
´ گورخر حلال جانور ہے` «. . . عن عطاء بن يسار حدثه عن ابى قتادة فى الحمار الوحشي مثل حديث ابى النضر، إلا ان حديث زيد بن اسلم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”هل معكم من لحمه شيء؟ . . .» ”. . . عطاء بن یسار سے روایت ہے، انہوں نے سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے وحشی گدھے (گورخر) کے بارے میں ابوالنضر جیسی حدیث بیان کی سوائے اس کے کہ زید بن اسلم کی (روایت کردہ) حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس اس کے گوشت میں سے کوئی چیز ہے؟ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 406]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 5491، ومسلم 1196/58، من حديث مالك به] تفقہ: ① زید بن اسلم تابعی والی یہی روایت ہے جسے انہوں نے عطاء بن یسار سے اور عطاء بن یسار نے سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔ ابوالنضر والی روایت آگے آ رہی ہے۔ [ح 426] ان شاء اللہ ② گورخر ایک چرنے والا جانور ہے جو حلال ہے، اسے نیل گائے بھی کہتے ہیں۔ ③ ایک روایت کی سند ضعیف ہو اور اس کے متن کی بعینہ تائید دوسری صحیح روایت سے ہو تو یہ روایت بھی صحیح ہوجاتی ہے، اسے صحیح لغیرہ کہتے ہیں۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 173
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1852
´محرم کے لیے شکار کا گوشت کھانا کیسا ہے؟` ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، مکہ کا راستہ طے کرنے کے بعد اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ جو احرام باندھے ہوئے تھے وہ پیچھے رہ گئے، انہوں نے احرام نہیں باندھا تھا، پھر اچانک انہوں نے ایک نیل گائے دیکھا تو اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور ساتھیوں سے کوڑا مانگا، انہوں نے انکار کیا، پھر ان سے برچھا مانگا تو انہوں نے پھر انکار کیا، پھر انہوں نے نیزہ خود لیا اور نیل گائے پر حملہ کر کے اسے مار ڈالا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ساتھیوں نے اس میں سے کھایا اور بعض نے انکار کیا، جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر ملے تو آپ سے اس بارے میں پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ایک کھانا تھا جو اللہ نے تمہیں کھلایا۔“[سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1852]
1852. اردو حاشیہ: -1احرام کی حالت میں کسی شکاری کوشکار کا اشارہ دینا یا اس سے کسی طرح کا تعاون کرنا بھی ناجائز ہے۔ ➋ جب کوئی شکاری صرف اپنے لئے شکار کرے تو محرمین کو اس سے کھا لینا جائز ہے۔ ➌ صحیح احادیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کا بقیہ گوشت تناول فرمایا تھا۔(صحیح المسلم الحج۔حدیث 119 ➐ 1196]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1852
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2818
´محرم کے لیے جائز شکار کا بیان۔` ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ (حج کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے یہاں تک کہ وہ مکہ کے راستہ میں احرام باندھے ہوئے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے، اور وہ خود محرم نہیں تھے (وہاں) انہوں نے ایک نیل گائے دیکھی، تو وہ اپنے گھوڑے پر جم کر بیٹھ گئے، پھر انہوں نے اپنے ساتھیوں سے درخواست کی وہ انہیں ان کا کوڑا دے دیں، تو ان لوگوں نے انکار کیا تو انہوں نے خود ہی لے لیا، پھر تیزی سے اس پر جھپٹے، اور اسے مار گرایا، تو اس م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2818]
اردو حاشہ: (1) یہ عمرے کے سفر کی بات ہے۔ اس عمرے کو عمرۃ الحدیبیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ 6ہجری میں ہوا۔ (2)”وہ محرم نہیں تھے“ دراصل آپ نے انھیں کسی اور کام پر بھیجا تھا۔ (3)”انھوں نے انکار کیا“ کیونکہ محرم کے لیے شکار کرنا بھی منع ہے اور کسی شکار میں تعاون کرنا بھی حرام ہے۔ (4) اگر محرم نے خود شکار نہ کیا ہو اور نہ شکار ہی میں کچھ تعاون کیا ہو تو وہ محرم اس شکار کا گوشت کھا سکتا ہے بشرطیکہ شکار کرنے والا اور ذبح کرنے والا حلال ہو، محرم نہ ہو۔ بعض دوسری احادیث میں یہ شرط بھی ہے کہ شکار کرنے والے شخص نے وہ شکار محرم کے لیے نہ کیا ہو بلکہ اپنے لیے کیا ہو، بعد میں وہ بطور تحفہ محرم کو دے تو وہ کھا سکتا ہے۔ دیکھیے: (مسند احمد: 5/ 302، وجامع الترمذي، الحج، حدیث: 849) یہ احادیث صحیح ہیں، لہٰذا یہ شرط بھی ضروری ہے۔ احناف بلا وجہ اس شرط کو ضروری نہیں سمجھتے مگر اس طرز عمل سے بہت سی احادیث عمل سے رہ جائیں گی جو یقینا غیر مناسب بات ہے۔ ہر صحیح حدیث واجب العمل ہے۔ (5) اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے۔ (6) مجتہد اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کرے گا اگرچہ اس کی رائے کی مخالفت کی گئی ہو۔ (7) جب کسی مسئلے میں اختلاف واقع ہو جائے تو نص کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2818
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 847
´محرم شکار کا گوشت کھائے اس کا بیان۔` ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، یہاں تک کہ آپ جب مکے کا کچھ راستہ طے کر چکے تو وہ اپنے بعض محرم ساتھیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے جب کہ ابوقتادہ خود غیر محرم تھے، اسی دوران انہوں نے ایک نیل گائے دیکھا، تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے درخواست کی کہ وہ انہیں ان کا کوڑا اٹھا کر دے دیں تو ان لوگوں نے اسے انہیں دینے سے انکار کیا۔ پھر انہوں نے ان سے اپنا نیزہ مانگا۔ تو ان لوگوں نے اسے بھی اٹھا کر دینے سے انکار کیا تو انہوں نے اسے خود ہی (اتر کر) اٹھا لیا اور شکار کا پیچھا کیا اور اسے مار ڈالا،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 847]
اردو حاشہ: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خشکی کا شکار اگر کسی غیر احرام والے نے اپنے لیے کیا ہو اور محرم نے کسی طرح کا تعاون اس میں نہ کیا ہو تو اس میں اسے محرم کے لیے کھانا جائز ہے، اور اگر کسی غیر محرم نے خشکی کا شکار محرم کے لیے کیا ہو یا محرم نے اس میں کسی طرح کا تعاون کیا ہو تو محرم کے لیے اس کا کھانا جائز نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 847
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:428
428- سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے، یہاں تک کہ جب تک قاحہ (نامی جگہ) پر پہنچے، تو ہم میں سے کچھ لوگوں نے احرام باندھا ہوا تھا، اور کچھ نے احرام نہیں باندھا ہوا تھا۔ اس دوران میں نظر اپنے ساتھیوں پر پڑی، تو وہ ایک دوسرے کو کوئی اشارہ کر رہے تھے۔ میں نے غور سے جائزہ لیا تو وہاں ایک نیل گائے تھی، میں نے اپنے گھوڑے پر زین رکھی اس پر سوار ہوا۔ میں نے اپنا نیزہ پکڑا تو میری چھڑی گرگئی، تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: تم مجھے اسے پکڑاؤ، وہ لوگ احرام باندھے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم کسی بھی حوالے سے تمہاری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:428]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حالت احرام میں تمام ممنوع کام سے کلی اجتناب کرنا چاہیے تا کہ حج وعمرے کا ثواب حاصل ہو، اگر ان شرائط کی پابندی نہ کی تو حج و عمرہ بے فائدہ رہے گا۔ نیز اس حدیث میں اتباع قرآن و حدیث کو لازم پکڑنے پر زبردست دلیل ہے۔ مومن کو نہ صرف سفر حج یا سفر عمرہ میں اتباع قرآن و حدیث کرنی چاہیے، بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں قرآن و حدیث کوملحوظ رکھنا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 428
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1824
1824. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ حج کی نیت سے روانہ ہوئے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی آپ کے ہمراہ نکلے۔ آپ نے ان میں سے کچھ لوگوں کو دوسرے راستے سے بھیج دیا۔ ان میں ابو قتادہ ؓ بھی تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا: ” تم سمندر کا کنارہ اختیار کرو حتی کہ ہم آملیں۔“ وہ دریا کے کنارے چلتے رہے۔ جب وہ لوٹے تو ان سب نے احرام باندھ رکھا تھا لیکن حضرت ابوقتادہ ؓ نے احرام نہیں باندھا تھا، اس دوران میں کہ وہ چل رہے تھے انھوں نے کئی ایک گاؤخر دیکھے۔ حضرت ابو قتادہ ؓ نے اچانک ان پر حملہ کیا تو مادہ گاؤخر کو شکار کر لیا۔ ان کے ساتھی سواریوں سے اترے اور اس کا گوشت کھایا پھر کہنے لگے: ہم تو محرم ہیں، کیا ہم اس طرح شکار کا گوشت کھاسکتے ہیں؟پھر ہم نے اس مادہ گاؤخر کے کے گوشت سے کچھ بچاہوا ٹکڑا لیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1824]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ حالت احرام والوں کے واسطے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ شکاری کو اشاروں سے اس شکار کے لیے رہ نمائی کرسکیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1824
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5490
5490. سیدنا ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے، پھر وہ مکہ کے راستے میں ایک جگہ اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ گئے جو حالت احرام میں تھے اور خود انہوں نے احرام نہیں باندھا تھا۔ اس دوران میں انہوں نے ایک گاؤخر دیکھا تو اسے شکار کرنے کے لیے اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ پھر انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ انہیں کوڑا دے دیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا پھر ان سے اپنا نیزہ مانگا تو وہ بھی اٹھا کر دینے کے لیے تیار نہ ہوئے تاہم انہوں نے خود ہی اٹھایا اور گاؤخر پر حملہ کر کے اسے شکار کر لیا پھر کچھ ساتھیوں نے اس کا گوشت کھالیا اور کچھ حضرات نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد جب وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس کے متعلق دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تو ایک کھانا تھا جو اللہ تعالٰی نے تمہارے لیے مہیا کیا تھا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5490]
حدیث حاشیہ: حالت احرام میں کسی دوسرے کا شکار کیا ہوا جانور کھانا جائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5490
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5492
5492. سیدنا ابو قتادہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان نبی ﷺ کے ہمراہ تھا دوسرے صحابہ کرام ؓ تو احرام باندھے ہوئے تھے جبکہ میں احرام کے بغیر تھا میں ایک گھوڑے پر سوار تھا اور پہاڑوں پر چڑھنے کا بڑا ماہر تھا۔ میں نے اس دوران میں لوگوں کو دیکھا کہ وہ للچائی ہوئی نگاہوں سے کوئی چیز دیکھ رہے ہیں۔ میں نے دیکھنا شروع کیا تو اچانک میری نظر ایک گاؤخر پر پڑی۔ میں نے ساتھیوں سے پوچھا یہ کیا چیز ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو گاؤخر ہے انہوں نے کہا: یہ وہی ہے جو تو نے دیکھا ہے۔ میں اپنا کوڑا بھول گیا تھا۔ میں نے ان سے کہا: مجھے میرا کوڑا دے دو۔ انہوں نے کہا: ہم اس سلسلے میں تمہارا کوئی تعاون نہیں کر سکتے۔ میں نے اتر کر اپنا کوڑا خود اٹھایا اور اس گاؤخر کے پیچھے دوڑ پڑا۔ واقعی وہ گاؤخر تھا۔ میں نے پیچھے سے اس کی ٹانگ کو زخمی کر دیا۔ میں اپنے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5492]
حدیث حاشیہ: حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے اپنے شکار کے لیے پہاڑوں پر چڑھنے کا مشاق بتایا ہے۔ یہی باب سے مطابقت ہے۔ توامہ وہ لڑکی جو جڑواں پیدا ہو۔ یہ امیہ بن خلف کی بیٹی تھی جو اپنے بھائی کے ساتھ جڑواں پیدا ہوئی تھی۔ اس لیے اس کا یہی نام پڑ گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5492
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1824
1824. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ حج کی نیت سے روانہ ہوئے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی آپ کے ہمراہ نکلے۔ آپ نے ان میں سے کچھ لوگوں کو دوسرے راستے سے بھیج دیا۔ ان میں ابو قتادہ ؓ بھی تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا: ” تم سمندر کا کنارہ اختیار کرو حتی کہ ہم آملیں۔“ وہ دریا کے کنارے چلتے رہے۔ جب وہ لوٹے تو ان سب نے احرام باندھ رکھا تھا لیکن حضرت ابوقتادہ ؓ نے احرام نہیں باندھا تھا، اس دوران میں کہ وہ چل رہے تھے انھوں نے کئی ایک گاؤخر دیکھے۔ حضرت ابو قتادہ ؓ نے اچانک ان پر حملہ کیا تو مادہ گاؤخر کو شکار کر لیا۔ ان کے ساتھی سواریوں سے اترے اور اس کا گوشت کھایا پھر کہنے لگے: ہم تو محرم ہیں، کیا ہم اس طرح شکار کا گوشت کھاسکتے ہیں؟پھر ہم نے اس مادہ گاؤخر کے کے گوشت سے کچھ بچاہوا ٹکڑا لیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1824]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث کا آغاز بایں الفاظ ہے کہ رسول اللہ ﷺ حج کی نیت سے عازم سفر ہوئے، یہ کسی راوی کو وہم ہوا ہے کیونکہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جم غفیر تھا اور ان میں سے کوئی ساحل سمندر کے راستے سے نہیں گیا بلکہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آنے کے لیے جو شاہراہ عام تھی اسی پر چلتے رہے۔ یہ عمرۂ حدیبیہ کا واقعہ ہے جیسا کہ خود حضرت ابو قتادہ ؓ سے اس کی وضاحت مروی ہے۔ اگر حج کو لغوی معنی میں لیا جائے تو صحیح ہے کیونکہ اس کے معنی قصد کرنے کے ہیں، عمرے میں بھی بیت اللہ کا قصد ہوتا ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرم کے لیے جائز نہیں کہ وہ غیر محرم کو شکار کی نشاندہی کرے یا اس کی طرف اشارہ کرے۔ اگر کسی نے شکار کی طرف اشارہ کر دیا اور غیر محرم نے اسے شکار کر لیا تو محرم کے لیے اس کا کھانا جائز نہیں لیکن محرم پر اس سلسلے میں کوئی تاوان نہیں ہو گا جیسا کہ امام مالک اور امام شافعی ؒ کا موقف ہے۔ (فتح الباري: 39/4) واللہ أعلم (3) محرم کے لیے شکار کرنا جائز نہیں۔ ہاں، اگر شکاری جانور محرم پر حملہ کر دے اور وہ اپنا دفاع کرتے ہوئے اسے مار دے تو اس صورت میں بھی اس پر کوئی تاوان نہیں ہو گا۔ (فتح الباري: 41/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1824
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5492
5492. سیدنا ابو قتادہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان نبی ﷺ کے ہمراہ تھا دوسرے صحابہ کرام ؓ تو احرام باندھے ہوئے تھے جبکہ میں احرام کے بغیر تھا میں ایک گھوڑے پر سوار تھا اور پہاڑوں پر چڑھنے کا بڑا ماہر تھا۔ میں نے اس دوران میں لوگوں کو دیکھا کہ وہ للچائی ہوئی نگاہوں سے کوئی چیز دیکھ رہے ہیں۔ میں نے دیکھنا شروع کیا تو اچانک میری نظر ایک گاؤخر پر پڑی۔ میں نے ساتھیوں سے پوچھا یہ کیا چیز ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو گاؤخر ہے انہوں نے کہا: یہ وہی ہے جو تو نے دیکھا ہے۔ میں اپنا کوڑا بھول گیا تھا۔ میں نے ان سے کہا: مجھے میرا کوڑا دے دو۔ انہوں نے کہا: ہم اس سلسلے میں تمہارا کوئی تعاون نہیں کر سکتے۔ میں نے اتر کر اپنا کوڑا خود اٹھایا اور اس گاؤخر کے پیچھے دوڑ پڑا۔ واقعی وہ گاؤخر تھا۔ میں نے پیچھے سے اس کی ٹانگ کو زخمی کر دیا۔ میں اپنے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5492]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شکار کے لیے پہاڑوں پر چڑھنا، وہاں اپنا گھوڑا دوڑانا اور مشقت اٹھانا جائز ہے۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ پہاڑوں پر چڑھنے کے بہت ماہر تھے۔ یہ شکار بھی انہوں نے پہاڑ پر کیا۔ (2) پہاڑوں پر چڑھ کر اگرچہ شکار کا جواز اس حدیث سے ملتا ہے لیکن بہرحال پہاڑ پر چڑھنا اور وہاں شکار کے پیچھے بھاگ دوڑ کرنا خطرات سے خالی نہیں ہے، لہذا جواز کی حد تک درست ہے، مگر یہ مشغلہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ فرائض و واجبات کی ادائیگی میں سستی کا سبب بن جائے، اگر ایسا ہو تو شکار کے لیے پہاڑوں پر چڑھنے کا تکلف نہیں کرنا چاہیے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5492