الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ
کتاب: کھانوں کے بیان میں
49. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الثُّومِ وَالْبُقُولِ:
49. باب: لہسن اور دوسری (بدبودار سبزیوں جیسے پیاز، مولی وغیرہ) ترکاریوں کا بیان۔
حدیث نمبر: Q5451
فِيهِ: عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
‏‏‏‏ اس بارے میں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ/حدیث: Q5451]
حدیث نمبر: 5451
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: قِيلَ لِأَنَسٍ: مَا سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي الثُّومِ، فَقَالَ: مَنْ أَكَلَ فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز نے بیان کیا کہ انس رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لہسن کے بارے میں کچھ کہتے نہیں سنا۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص (لہسن) کھائے تو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ/حدیث: 5451]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريمن أكل من هذه الشجرة فلا يقربنا أو لا يصلين معنا
   صحيح البخاريأكل فلا يقربن مسجدنا
   صحيح مسلممن أكل من هذه الشجرة فلا يقربنا ولا يصلي معنا

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5451 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5451  
حدیث حاشیہ:
یعنی ہمارے ساتھ نماز میں شریک نہ ہو کیونکہ ان کی بو سے فرشتوں کو اور نمازیوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔
ہاں اگر خوب صاف کر کے یا کچھ کھا کر بو دور کی جا سکے تو امر دیگر ہے۔
آج کل بیڑی سگریٹ پینے والوں کے لیے بھی منہ کی صفائی کا یہی حکم ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5451   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 856  
856. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، ان سے کسی آدمی نے سوال کیا کہ آپ نے نبی ﷺ سے اس لہسن کے متعلق کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص اس پودے سے کچھ کھائے وہ نہ تو ہمارے پاس آئے اور نہ ہمارے ساتھ نماز ہی پڑھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:856]
حدیث حاشیہ:
مقصد یہی ہے کہ ان چیزوں کو کچا کھانے سے منہ میں جو بو پیدا ہو جاتی ہے وہ دوسرے ساتھیوں کے لیے تکلیف دہ ہے لہٰذا ان چیزوں کے کھانے والوں کو چاہیے کہ جس طور ممکن ہو ان کی بدبو کا ازالہ کر کے مسجد میں آئیں۔
بیڑی سگریٹ کے لیے بھی یہی حکم ہے۔
تشریح:
مقصد یہی ہے کہ ان چیزوں کو کچا کھانے سے منہ میں جو بو پیدا ہو جاتی ہے وہ دوسرے ساتھیوں کے لیے تکلیف دہ ہے لہٰذا ان چیزوں کے کھانے والوں کو چاہیے کہ جس طور ممکن ہو ان کی بدبو کا ازالہ کر کے مسجد میں آئیں۔
بیڑی سگریٹ کے لیے بھی یہی حکم ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 856   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:856  
856. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، ان سے کسی آدمی نے سوال کیا کہ آپ نے نبی ﷺ سے اس لہسن کے متعلق کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص اس پودے سے کچھ کھائے وہ نہ تو ہمارے پاس آئے اور نہ ہمارے ساتھ نماز ہی پڑھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:856]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات نے اس حدیث سے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ نماز باجماعت ادا کرنا فرض نہیں کیونکہ کچا لہسن کھا کر مسجد میں آنے سے روک دیا گیا ہے جبکہ نماز باجماعت کا اہتمام مسجد ہی میں ہوتا ہے۔
یہ استدلال محل نظر ہے کیونکہ ناگوار بو پر مشتمل اشیاء کو استعمال کرنا نماز باجماعت فرض ہونے کے منافی نہیں جیسا کہ کھانا اگر سامنے آ جائے تو جماعت چھوڑ دینے کی اجازت ہے۔
دراصل اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو سہولت دی ہے کہ اس طرح کی مباح چیزوں کی وجہ سے جماعت کو چھوڑا جا سکتا ہے۔
اگر کوئی نماز باجماعت چھوڑنے کے لیے ایسی چیزوں کو بطور حیلہ استعمال کرتا ہے تو یقیناً اس کے لیے یہ چیزیں استعمال کرنی ناجائز اور حرام ہیں۔
جیسا کہ ابن دقیق العید نے اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ نماز باجماعت فرض ہے لیکن بہرحال عذر کی وجہ سے اسے ترک کیا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 443/3) (2)
امام ابن خزیمہ نے ایک حدیث سے اس کی حد مقرر کی ہے کہ جو آدمی لہسن یا پیاز استعمال کرے اسے تین دن تک مسجد کے قریب نہیں آنا چاہیے اور اس پر باقاعدہ عنوان قائم کیا ہے لیکن یہ استنباط صحیح نہیں کیونکہ عدد کا تعلق قرب کے بجائے قول سے ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ کہا تھا۔
حدیث کے ظاہر سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ منع کی علت ناگواریوں کا پایا جانا ہے اور وہ تین دن تک منہ میں نہیں رہتی۔
(فتح الباري: 444/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 856