اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ مریم میں) مریم علیہا السلام کو خطاب «وهزي إليك بجذع النخلة تساقط عليك رطبا جنيا»”اور اپنی طرف کھجور کی شاخ کو ہلا تو تم پر تازہ تر کھجور گریں گے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ/حدیث: Q5442]
اور محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے منصور ابن صفیہ نے، ان سے ان کی والدہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور ہم پانی اور کھجور ہی سے (اکثر دنوں میں) پیٹ بھرتے رہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ/حدیث: 5442]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5442
حدیث حاشیہ: غلہ کی کم یابی زمانہ میں ان احادیث سے سرکاری سطح پر راشن کی تقسیم کا طریقہ ثابت ہوا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ راشن اچھا ہو یا ردی برابر حصہ سب کو تقسیم کرنا چاہیئے۔ آج کے دور گرانی میں راشن کی صحیح تقسیم کے لیے ان احادیث نبوی میں بڑی روشنی ملتی ہے مگر دیکھنے سمجھنے عملی جامہ پہنانے کے لیے دیدئہ بینا کی ضرورت ہے نہ کہ آج کل جیسے بددیانت تقسیم کاروں کی جن کے ہاتھوں صحیح تقسیم نہ ہونے کے باعث مخلوق خدا پریشان ہے یہ راشن تقسیم کرنے کا دوسرا واقعہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5442
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5442
حدیث حاشیہ: (1) اہل حجاز کی پسندیدہ غذا کھجوریں تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس گھر میں کھجور نہ ہو اس کے رہنے والے بھوکے رہتے ہیں۔ “(جامع الترمذي، الأطعمة، حدیث: 1815)(2) اس حدیث میں کھجور اور پانی کو "أسودین" کہا گیا ہے۔ کھجور تو سیاہ ہوتی ہے، البتہ پانی کو تغلیب کی بنا پر سیاہ کہا گیا ہے جیسا کہ والدین کو أبوين اور سورج و چاند کو قمرين کہا جاتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5442