ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عباس جریری نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نہدی نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کھجور تقسیم کی اور ہر شخص کو سات کھجوریں دیں۔ مجھے بھی سات کھجوریں عنایت فرمائیں۔ ان میں ایک خراب تھی (اور سخت تھی) لیکن مجھے وہی سب سے زیادہ اچھی معلوم ہوئی کیونکہ اس کا چبانا مجھ کو مشکل ہو گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ/حدیث: 5411]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5411
حدیث حاشیہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں پر ایسی تنگی تھی کہ سات کھجوریں ایک آدمی کو بطورراشن ملتی اور ان میں بھی بعض خراب اور سخت ہوتی مگر ہم سب اسی پر خوش رہا کرتے تھے۔ اب بھی مسلمانوں کا فرض ہے کہ تنگی و فراخی ہرحال میں خوش رہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5411
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5411
حدیث حاشیہ: (1) حَشَفَة وہ کھجور ہوتی ہے جو درخت پر نہیں پکتی اور اس کی پختگی پوری نہیں ہوتی، اس لیے وہ خشک اور سخت ہو جاتی ہے۔ (2) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا مقصد فقر و تنگدستی کا اظہار کرنا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کو سات، سات کھجوریں ہر آدمی کے لیے بطورِ راشن ہوتی تھیں۔ ان میں بھی بعض خراب اور چبانے میں سخت ہوتیں، لیکن ایسی کھجوروں سے خوش ہوتے کہ انہیں چبانے میں دیر لگے گی اور زیادہ دیر منہ میں مٹھاس رہے گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5411