ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور وہب بن کیسان نے بیان کیا کہ اہل شام (حجاج بن یوسف کے فوجی) شام کے لوگ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو عار دلانے کے لیے کہنے لگے ”یا ابن ذات النطاقین“ اے دو کمر بند والی کے بیٹے اور ان کی والدہ، اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا، اے بیٹے! یہ تمہیں دو کمر بند والی کی عار دلاتے ہیں، تمہیں معلوم ہے وہ کمر بند کیا تھے؟ وہ میرا کمر بند تھا جس کے میں نے دو ٹکڑے کر دیئے تھے اور ایک ٹکڑے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برتن کا منہ باندھا تھا اور دوسرے سے دستر خوان بنایا (اس میں توشہ لپیٹا)۔ وہب نے بیان کیا کہ پھر جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو اہل شام دو کمر بند والی کی عار دلاتے تھے، تو وہ کہتے ہاں۔ اللہ کی قسم! یہ بیشک سچ ہے اور وہ یہ مصرعہ پڑھتے «تلك شكاة ظاهر عنك عارها.» یہ تو ویسا طعنہ ہے جس میں کچھ عیب نہیں ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ/حدیث: 5388]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5388
حدیث حاشیہ: یہ ابو ذویب شاعر کے قصیدے کا مصرعہ ہے۔ اس کا پہلا مصرعہ یہ ہے وعیرني الواشون إنی أحبھا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث لا کر ثابت کیا کہ دسترخوان کپڑے کا بھی ہو سکتا ہے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے شب ہجرت میں اپنے کمر بند کے دو ٹکڑے کر کے ایک سے آپ کے پانی کا مشکیزہ باندھا اور دوسرے سے آپ کا توشہ لپیٹا۔ اس دن سے ان کا لقب ذات النطاقین (دو کمر بند والی ہو گیا تھا۔ )
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5388
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5388
حدیث حاشیہ: (1) نِطَاقين، نِطَاق کا تثنیہ ہے۔ اس سے مراد وہ کپڑا ہے جو عورتیں کمر پر باندھتی ہیں۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے ہجرت کے موقع پر اپنے کمر بند کے دو ٹکڑے کیے۔ ایک سے مشکیزے کا منہ باندھا اور دوسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بطور دستر خوان رکھ دیا۔ (2) ذات النطاقین کا لقب آپ کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا جسے شامی لوگ طعنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان کر کے ثابت کیا ہے کہ دستر خوان کپڑے کا بھی ہو سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کے دستر خوان استعمال کرتے تھے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5388