الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
41. بَابُ قِصَّةِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ:
41. باب: فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا واقعہ۔
حدیث نمبر: Q5321-2
وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ فِيمَنْ تَزَوَّجَ فِي الْعِدَّةِ فَحَاضَتْ عِنْدَهُ ثَلَاثَ حِيَضٍ بَانَتْ مِنَ الْأَوَّلِ وَلَا تَحْتَسِبُ بِهِ لِمَنْ بَعْدَهُ، وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: تَحْتَسِبُ وَهَذَا أَحَبُّ إِلَى سُفْيَانَ يَعْنِي قَوْلَ الزُّهْرِيِّ، وَقَالَ مَعْمَرٌ: يُقَالُ: أَقْرَأَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا دَنَا حَيْضُهَا وَأَقْرَأَتْ إِذَا دَنَا طُهْرُهَا، وَيُقَالُ: مَا قَرَأَتْ بِسَلًى قَطُّ إِذَا لَمْ تَجْمَعْ وَلَدًا فِي بَطْنِهَا".
‏‏‏‏ اور ابراہیم نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جس نے کسی عورت سے عدت ہی میں نکاح کر لیا اور پھر وہ اس کے پاس تین حیض کی مدت گزرنے تک رہی کہ اس کے بعد وہ پہلے ہی شوہر سے جدا ہو گی۔ (اور یہ صرف اس کی عدت سمجھی جائے گی) دوسرے نکاح کی عدت کا شمار اس میں نہیں ہو گا لیکن زہری نے کہا کہ اسی میں دوسرے نکاح کی عدت کا شمار بھی ہو گا، یہی یعنی زہری کا قول سفیان کو زیادہ پسند تھا۔ معمر نے کہا کہ «أقرأت المرأة» اس وقت بولتے ہیں جب عورت کا حیض قریب ہو۔ اسی طرح «أقرأت» اس وقت بھی بولتے ہیں جب عورت کا طہر قریب ہو، جب کسی عورت کے پیٹ میں کبھی کوئی حمل نہ ہوا ہو تو اس کے لیے عرب کہتے ہیں «ما قرأت بسلى قط» یعنی اس کو کبھی پیٹ نہیں رہا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ/حدیث: Q5321-2]
حدیث نمبر: Q5321
وَقَوْلِ اللَّهِ: وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلا يَخْرُجْنَ إِلا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا سورة الطلاق آية 1 أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِنْ كُنَّ أُولاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ إِلَى قَوْلِهِ: بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا سورة الطلاق آية 1 - 7.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اپنے پروردگار اللہ سے ڈرتے رہو، انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، بجز اس صورت کے کہ وہ کسی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کریں۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدود سے بڑھے گا، اس نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ تجھے خبر نہیں شاید کہ اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے۔ ان مطلقات کو اپنی حیثیت کے مطابق رہنے کا مکان دو جہاں تم رہتے ہو اور انہیں تنگ کرنے کے لیے انہیں تکلیف مت پہنچاؤ اور اگر وہ حمل والیاں ہوں تو انہیں خرچ بھی دیتے رہو۔ ان کے حمل کے پیدا ہونے تک۔ آخر آیت اللہ تعالیٰ کے ارشاد «بعد عسر يسرا‏» تک۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ/حدیث: Q5321]
حدیث نمبر: 5321
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُمَا يَذْكُرَانِ،" أَنَّ يَحْيَى بْنَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ طَلَّقَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَكَمِ، فَانْتَقَلَهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَأَرْسَلَتْ عَائِشَةُ أُمُّ الْمُؤْمِنِيِنَ إِلَى مَرْوَانَ بْنِ الحَكَمِ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ: اتَّقِ اللَّهَ وَارْدُدْهَا إِلَى بَيْتِهَا"، قَالَ مَرْوَانُ فِي حَدِيثِ سُلَيْمَانَ: إِنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَكَمِ غَلَبَنِي، وَقَالَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ: أَوَمَا بَلَغَكِ شَأْنُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، قَالَتْ: لَا يَضُرُّكَ أَنْ لَا تَذْكُرَ حَدِيثَ فَاطِمَةَ، فَقَالَ مَرْوَانُ بْنُ الحَكَمِ: إِنْ كَانَ بِكِ شَرٌّ فَحَسْبُكِ مَا بَيْنَ هَذَيْنِ مِنَ الشَّرِّ.
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے قاسم بن محمد اور سلیمان بن یسار نے، وہ دونوں بیان کرتے تھے کہ یحییٰ بن سعید بن العاص نے عبدالرحمٰن بن حکم کی صاحبزادی (عمرہ) کو طلاق دے دی تھی اور ان کے باپ عبدالرحمٰن انہیں ان کے (شوہر کے) گھر سے لے آئے (عدت کے ایام گزرنے سے پہلے)۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے مروان بن حکم کے یہاں، جو اس وقت مدینہ کا امیر تھا، کہلوایا کہ اللہ سے ڈرو اور لڑکی کو اس کے گھر (جہاں اسے طلاق ہوئی ہے) پہنچا دو۔ جیسا کہ سلیمان بن یسار کی حدیث میں ہے۔ مروان نے اس کو جواب یہ دیا کہ لڑکی کے والد عبدالرحمٰن بن حکم نے میری بات نہیں مانی اور قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ (مروان نے ام المؤمنین کو یہ جواب دیا کہ) کیا آپ کو فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے معاملہ کا علم نہیں ہے؟ (انہوں نے بھی اپنے شوہر کے گھر عدت نہیں گزاری تھی)۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ اگر تم فاطمہ کے واقعہ کا حوالہ نہ دیتے تب بھی تمہارا کچھ نہ بگڑتا (کیونکہ وہ تمہارے لیے دلیل نہیں بن سکتا)۔ مروان بن حکم نے اس پر کہا کہ اگر آپ کے نزدیک (فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ان کے شوہر کے گھر سے منتقل کرنا) ان کے اور ان کے شوہر کے رشتہ داری کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے تھا تو یہاں بھی یہی وجہ کافی ہے کہ دونوں (میاں بیوی) کے درمیان کشیدگی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ/حدیث: 5321]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5321 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5321  
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ تھا کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث سے کیوں دلیل لیتے ہو، فاطمہ رضی اللہ عنہا کا اس گھر سے نکل جانا ایک عذر کی وجہ سے تھا۔
کوئی کہتا ہے کہ وہ گھر خوفناک تھا، کوئی کہتا ہے فاطمہ بد زبان عورت تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5321