اور عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ اگر کوئی نصرانی عورت اپنے شوہر سے تھوڑی دیر پہلے اسلام لائی تو وہ اپنے خاوند پر حرام ہو جاتی ہے اور داؤد نے بیان کیا کہ ان سے ابراہیم الصائغ نے کہ عطاء سے ایسی عورت کے متعلق پوچھا گیا جو ذمی قوم سے تعلق رکھتی ہو اور اسلام قبول کر لے، پھر اس کے بعد اس کا شوہر بھی اس کی عدت کے زمانہ ہی میں اسلام لے آئے تو کیا وہ اسی کی بیوی سمجھی جائے گی؟ فرمایا کہ نہیں البتہ اگر وہ نیا نکاح کرنا چاہے، نئے مہر کے ساتھ (تو کر سکتا ہے) مجاہد نے فرمایا کہ (بیوی کے اسلام لانے کے بعد) اگر شوہر اس کی عدت کے زمانہ میں ہی اسلام لے آیا تو اس سے نکاح کر لینا چاہیئے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا «لا هن حل لهم ولا هم يحلون لهن» کہ ”نہ مومن عورتیں مشرک مردوں کے لیے حلال ہیں اور نہ مشرک مرد مومن عورتوں کے لیے حلال ہیں۔“ اور حسن اور قتادہ نے دو مجوسیوں کے بارے میں (جو میاں بیوی تھے) جو اسلام لے آئے تھے، کہا کہ وہ دونوں اپنے نکاح پر باقی ہیں اور اگر ان میں سے کوئی اپنے ساتھی سے (اسلام میں) سبقت کر جائے اور دوسرا انکار کر دے تو عورت اپنے شوہر سے جدا ہو جاتی ہے اور شوہر اسے حاصل نہیں کر سکتا (سوا نکاح جدید کے) اور ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاء سے پوچھا کہ مشرکین کی کوئی عورت (اسلام قبول کرنے کے بعد) اگر مسلمانوں کے پاس آئے تو کیا اس کے مشرک شوہر کو اس کا مہر واپس کر دیا جائے گا؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «وأتوهم ما أنفقوا»”اور انہیں وہ واپس کر دو جو انہوں نے خرچ کیا ہو۔“ عطاء نے فرمایا کہ نہیں، یہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور معاہد مشرکین کے درمیان تھا اور مجاہد نے فرمایا کہ یہ سب کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان باہمی صلح کی وجہ سے تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ/حدیث: Q5288]
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے اور ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس نے بیان کیا کہ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مومن عورتیں جب ہجرت کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتی تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں آزماتے تھے بوجہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے «يا أيها الذين آمنوا إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن» کہ ”اے وہ لوگو! جو ایمان لے آئے ہو، جب مومن عورتیں تمہارے پاس ہجرت کر کے آئیں تو انہیں آزماؤ“۔ آخر آیت تک۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ان (ہجرت کرنے والی) مومن عورتوں میں سے جو اس شرط کا اقرار کر لیتی (جس کا ذکر اسی سورۃ الممتحنہ میں ہے کہ ”اللہ کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گی“) تو وہ آزمائش میں پوری سمجھی جاتی تھی۔ چنانچہ جب وہ اس کا اپنی زبان سے اقرار کر لیتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے کہ اب جاؤ میں نے تم سے عہد لے لیا ہے۔ ہرگز نہیں! واللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے (بیعت لیتے وقت) کسی عورت کا ہاتھ کبھی نہیں چھوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے صرف زبان سے (بیعت لیتے تھے)۔ واللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے صرف انہیں چیزوں کا عہد لیا جن کا اللہ نے آپ کو حکم دیا تھا۔ بیعت لینے کے بعد آپ ان سے فرماتے کہ میں نے تم سے عہد لے لیا ہے۔ یہ آپ صرف زبان سے کہتے کہ میں نے تم سے بیعت لے لی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ/حدیث: 5288]
انطلقن فقد بايعتكن لا والله ما مست يد رسول الله يد امرأة قط غير أنه بايعهن بالكلام والله ما أخذ رسول الله على النساء إلا بما أمره الله يقول لهن إذا أخذ عليهن قد بايعتكن كلاما
انطلقن فقد بايعتكن لا والله ما مست يد رسول الله يد امرأة قط غير أنه يبايعهن بالكلام قالت عائشة والله ما أخذ رسول الله على النساء قط إلا بما أمره الله وما مست كف رسول الله كف امرأة قط وكان يقو
انطلقن فقد بايعتكن لا والله ما مست يد رسول الله يد امرأة قط غير أنه يبايعهن بالكلام قالت عائشة والله ما أخذ رسول الله على النساء إلا ما أمره الله ولا مست كف رسول الله كف امرأة قط وكان يقول لهن إذا أ
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5288
حدیث حاشیہ: (1) دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے، البتہ ہجرت کرکے آنے والی خواتین کا ظاہری طور پر امتحان لینا ضروری قرار پایا کہ واقعی وہ مسلمان ہیں اور محض اسلام کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ کر آئی ہیں، کوئی دنیوی یا نفسانی غرض تو اس ہجرت کا سبب نہیں ہے؟ کہیں اپنے خاوندوں سے ناراض ہو کر یا خانگی معاملات اور گھریلو جھگڑوں سے تنگ آ کر یا محض سیر و سیاحت یا کوئی دوسری غرض تو اس ہجرت کا سبب نہیں بنی؟(2) اس حکم کے مخاطب چونکہ مومن حضرات ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غرض کے لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا تھا اور وہی مدینہ طیبہ پہنچنے والی خواتین کا امتحان لیتے تھے۔ اس امتحان کے بعد ان مہاجر عورتوں بلکہ عام خواتین اسلام کو بیعت کا حکم ہوا اور یہ بیعت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیتے تھے کیونکہ بیعت سے متعلق آیت کے مخاطب آپ ہی ہیں اور جن گناہوں سے بچنے کی بیعت لی جاتی تھی وہ سب کبیرہ گناہ ہیں اور ان کا اس وقت عرب میں عام رواج تھا اس بیعت کی تفصیل سورۂ ممتحنہ آیت: 12 میں بیان ہوئی ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5288
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2875
´عورتوں کی بیعت کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مومن عورتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہجرت کر کے آتیں تو اللہ تعالیٰ کے فرمان: «يا أيها النبي إذا جاءك المؤمنات يبايعنك»(سورة الممتحنة: 12)”اے نبی! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی چوری نہ کریں گی، زناکاری نہ کریں گی، اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی، اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی، جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں تیری بےحکمی نہ کریں گی، تو آپ ان سے بیعت کر لیا کریں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2875]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) حدیث میں مذکور آیت کے مکمل الفاظ اس طرح ہیں: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾”اے نبیﷺ! جب مومن عورتیں آپﷺ کے پاس ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی چوری نہ کریں گی چوری نہ کریں گی بدکاری نہ کریں گی اپنی اولاد کو مار نہ ڈالیں گی کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑلیں اور کسی نیک کام میں آپ کی حکم عدولی نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت لے لیں اور ان کے لیے اللہ سے دعائے مغفرت کریں۔ بے چک اللہ تعالی بہت بخشنے اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔“
(4) آپ عورتوں سے یہ عہد بھی لیتے تھے کہ وہ نوحہ وغیرہ نہیں کریں گی۔ سنن ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جس نیکی کے بارے میں ہم سے وعدہ لیا گیا تھا کہ ہم اس میں نبی ﷺ کی نافرمانی نہیں کریں گی اس میں یہ بھی شامل ہے کہ چہرہ (نوچ کر) زخمی نہ کریں واویلا (اور بین) نہ کریں گریبان چاک نہ کریں اور بال نہ بکھیریں۔ (سنن أبي داؤد الجنائز باب النوح حديث: 313)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2875
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4835
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عروہ کو عورتوں کی بیعت کے بارے میں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کبھی کسی عورت کو نہیں لگا، مگر ان سے عہد لیتے تھے، تو جب آپ اس سے زبانی عہد لیتے تھے، وہ جب عہد دے دیتی تھی تو آپﷺ فرماتے، ”جا، میں نے تجھے بیعت کر لیا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4835]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: صلح حدیبیہ کے بعد، جب مسلمان عورتوں کے لیے، مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچنے کا راستہ کھلا، کیونکہ وہ واپسی کے معاہدے میں داخل نہ تھیں، یا اللہ تعالیٰ نے ان کو مستثنیٰ کرنے کا حکم دیا اور کافروں نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہ کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا، ان کے ایمان کا جائزہ لیں، کہ کیا وہ واقعی صرف اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کر کے آئی ہیں، یا اس کا پس منظر خاوند سے نفرت، کسی سے عشق یا دنیا کی لالچ ہے، اگر وہ ایمان میں پختہ اور مضبوط ہیں، ہجرت صرف اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہے، تو ان کو بیعت کر لیں اور بیعت کی شروط بھی بیان کر دی گئیں جو عورت ان شروط کا اقرار کر لیتی، وہ امتحان میں کامیاب ٹھہر جاتی اور آپ اس سے، ہاتھ میں ہاتھ لیے بغیر زبانی کلامی بیعت لے لیتے اور اسے جانے کا حکم دیتے، اگر رسول اللہ، غیر محرم عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتے تھے، تو امتیوں کو اس کی اجازت کیسے مل سکتی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4835
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7214
7214. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ عورتوں سے زبانی طور پر اس آیت کے احکام کی بیعت لیتے تھے: وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی۔ نیز انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ کبھی کسی عورت کا ہاتھ انہیں چھوا سوائے اس عورت کے جس کے آپ مالک تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7214]
حدیث حاشیہ: یا آپ کی بیوی ہو۔ ان سب سے غیر عورتیں مراد ہیں۔ بیعت میں بھی آپ نے ان کا ہاتھ نہیں چھوا۔ نسائی اور طبرانی کی روایت میں یوں ہے۔ امیمہ بنت رقیقہ کئی عورتوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئئی اور مصافحہ کے لیے کہا۔ آپ نے فرمایا کہ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7214